زندگی ہر پل انتظارمیں رہتی ہے کچھ صحیح کرنے کے لئے ظاہر پر نہ جانا‘ آگ دیکھنے میں سرخ نظر آتی ہے مگر اس کا جلا یا سیاہ ہو جاتا ہےدستک کی آواز پر دروازہ ضرور کھولو‘
ہو سکتا ہے خوش نصیبی منتظر ہو اور ایک بار نہ کھولنے پر ایسا روٹھے کہ پھر دکھائی نہ دے۔مشاہدے سے آپ بہت کچھ جان سکتے ہیں مگر سیکھتے تجربے سے ہی ہیں۔تنہائی اچھی چیز ہے مگر تنہائی اور حساسیت مل جائیں تو آنسوؤں کے طوفان میں انسان کا وجود فنا ہو سکتا ہے۔سکھ خوشی کا نام نہیں‘ غم اور خوشی دونوں سے بے نیاز ہونے کا نام ہے۔کہنے والا یقین سے محروم ہو تو سننے والا تاثیر سے مرحوم رہتا ہے۔ جھکی ہوئی شاخ پھل دار ضرور ہوتی ہے مگر زیادہ جھکی ہوئی شاخ راستہ چلنے والوں کیلئے مسئلہ بھی بن سکتیمسئلہ بھی بن سکتی ہے۔موت کو یاد رکھنانفس کی تمام بیماریوں کی دعا ہے۔آنسوؤں کو مسکراہٹ میں بدل دو تو زندگی میں خوشیاں تلاش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔علم کی طلب میں شرم مناسب نہیں‘ جہالت شرم سے بدتر ہے۔کوئی آئینہ انسان کی اتنی حقیقی تصوری پیش نہیں کرتا جتنی کہ اس کی بات چیت۔ہر لبرل آدمی پہلے اپنا راستہ چھوڑتا ہے اور پھر کسی اور کے راستے کو درست سمجھتا ہے. اس کے پاس نہ اپنی اقدار باقی رہتی ہیں ، نہ سی اور کی اقدار کی وہ عزت کرسکتا ہے. ضرورت اس بات کی نہیں کہ انسان بے رنگ ہو.بلکہ سمجھنا یہ پڑے گا کہ ہر رنگ کی اپنی شان ہے۔‘‘قدسیہ بانو