اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)افلاطون اپنے اْستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا ‘‘آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا’’ سقراط نے مسکرا کر پوچھا ‘‘وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟’’ افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ‘‘آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا۔۔۔!’’ اْس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نےہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا ‘‘تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی کسوٹی پر .
رکھو، اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے، یا نہیں’’ افلاطون نے عرض کیا ‘‘ استاد! تین کی کسوٹی کیا ہے؟’’ سقراط بولا ‘‘کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے۔۔۔؟’’ افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔سقراط نے ہنس کر کہا ‘‘پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟’’ افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا ‘‘یہ پہلی کسوٹی تھی۔۔ اب دوسری کسوٹی ۔ ‘‘مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔؟’’ افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا۔ ‘‘جی! نہیں یہ بْری بات ہے۔۔!’’ سقراط نے مسکرا کر کہا ‘‘کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اْستاد کو بْری بات بتانی چاہیے۔۔؟’’ افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔ سقراط بولا ‘‘گویا یہ دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیںاترتی۔’’ افلاطون خاموش رہا! سقراط نے ذرا سا رْک کر کہا ‘‘اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟’’ افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا ‘‘اْستاد! یہ بات ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔۔!’’ سقراط نے ہنس کر کہا ‘‘اگر یہ بات میرے لیےفائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟’’ افلاطون پریشان ہو
کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔۔ سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے، اْس کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر رکھتے تھے اوراگر وہبات تین کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی تو وہ بے دھڑک بول دیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا، تو وہ خاموش ہو جاتے تھے۔