حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ درس حدیث دے رہے تھے دوران تدریس ایک جگہ ایسا اشکال پیدا ہوا کہ اس کا حل سمجھ میں نہیں آتا تھا کوئی ہمارے جیسا ہوتا تو وہ ویسے ہی گول کر جاتا‘ پتہ ہی نہ چلنے دیتا کہ یہ بھی کوئی حل طلب نکتہ ہے یا نہیں‘ طلبہ کو کیا پتہ‘ وہ تو پڑھ رہے ہوتے ہیں یہ تو استاد کا کام ہے کہ بتائے یا نہ بتائے۔ مگر وہ حضرات امین تھے یہ علمی خیانت ہوتی ہے کہ استاد کے ذہن میں خود اشکال وارد ہو جواب بھی سمجھ میں نہ آئے اور طلبہ کو بتایا بھی نہ جائے۔
ان حضرات سے تو وہ خیانت ہوتی نہیں تھی‘ چنانچہ آپ نے طلباء کو برملا بتا دیا کہ اس مقام پر یہ اشکال وارد ہو رہا ہے مگر اس کا حل سمجھ میں نہیںآرہا‘ کافی دیر تک طلباء بھی خاموش رہے اور حضرت بھی خاموش رہے‘ آپ بار بار اس کو پڑھ رہے ہیں کبھی صفحہ الٹ رہے ہیں اور کبھی اس کا حاشیہ دیکھ رہے ہیں مگر اس کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آ رہا‘ حتیٰ کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے بات سمجھ میں نہی ںآ رہی چلیں میں فلاں مولانا سے پوچھ لیتا ہوں یہ وہ مولانا تھے جو حضرت سے ہی دور حدیث کر چکے تھے وہ حضرت کے شاگرد تھے۔اپنے شاگردوں کے سامنے ان کا نام لیا کہ میں ذرا ان سے پوچھ لیتا ہوں چنانچہ آپ اٹھنے لگے‘ اتنے میں ایک طالب علم بھاگ کر گیا اور اس نے جا کر مولانا کو بتا دیا کہ حضرت آپ کے پاس اس مقصد کیلئے آ رہے ہیں مولانا اپنی کتاب بند کر کے فوراً حضرت کے پاس پہنچے۔ حاضر ہو کر عرض کیا‘ حضرت! آپ نےیادفرمایا ہے۔فرمایا ہاں مولانا! یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آ رہی دیکھو اس کا حل کیا ہے؟ انہوں نے پڑھا اور سمجھ تو گئے مگر بات یوں کی‘ حضرت! جب آپ کے پاس پڑھتا تھا تو آپ نے ہمیں یہ سبق پڑھاتے ہوئے اس مقام کو اس وقت یوں حل فرمایا تھا اور آگے اس کا جواب دے دیا‘ اب دیکھیں کہ اپنی طرف منسوب نہیں کیا کہ جی میرا تو علم اتنا ہے کہ اب استاد بھی مجھ سے پوچھنے آتے ہیں نہیں نہیں وہ صحبت یافتہ تھے‘ تربیت یافتہ تھے اس کو کہتے ہیں تصوف اور یہ ہے مٹنا۔















































