حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی نے ایک نوجوان کا واقعہ سنایا کہ ایک نوجوان نے میٹرک کا امتحان دیا اور وہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوا‘ اس کے والد اور والدہ دونوں بوڑھے ہو چکے تھے اس کا والد بیمار بھی تھا‘ کمزور بیھ تھا اور کام بھی نہیں کر سکتا تھا‘ بچے نے کہا کالج میں داخلہ دلوا دیں۔ باپ نے کہا کہ ہم تو نان شبینہ کو ترستے ہیں بیٹا تو دکان بنا تاکہ کچھ ہمارے لئے کھانے پینے کا بندوبست ہو‘
باپ نے تین ہزار روپے سے اس کیلئے اپنے گھر کی بیٹھک میں ایک کریانے کی دکان بنائی وہ بیچارہ سکول میں فرسٹ آنے والا بچہ کریانے کی دکان چلانے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ اسے پڑھنے کا شوق تھا اس نے ایف ایس سی کی کتابیں لے لیں او رچوری چھپے پڑھنی شروع کر دیں والد کو پتہ نہیں ہے والدہ کو پتہ نہیں ہے لڑکا فارغ وقت میں دکان پر کتاب پڑھتا جب کوئی گاہک آتا تو اسے سودا دے دیتا۔ خیر اس نے ایف ایس سی کی فزکس‘ کیمسٹری اور میتھ کی ساری کتابیں پرائیویٹ خودپڑھ لیں‘ کہیں کہیں اٹکنے لگا تو اس نے پروفیسر صاحب سے کہا کہ میں پڑھنا چاہتا ہوں مجھے پریکٹیکل بھی کرنے میں آپ میری مدد کریں۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ پریکٹیکل کرواتا ہوں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے مجھے تو خوشی ہوگی‘ اب دیکھو اس بچے نے کتنی عقلمندی کا مظاہرہ کیا کہ جس دن پریکٹیکل ہوتا اپنے سودا لانے کا وہی دن مقرر کرتا اور چار دن پہلے والد کو کہتا کہ مجھے فلاں دن سودا لانا ہے والد کہتا بہت اچھا‘ اس دن یہ لڑکا پیسے لیتا اور بازار میں جاتا اور ایک بہت ہی دیندار اور پرہیزگار آدمی کو لسٹ دیتا کہ یہ سودا نکال کر رکھو اور میں ابھی آتا ہوں جتنی دیر دکاندار سودا نکالتا یہ لڑکا اس وقت کالج میں جا کر پریکٹیکل کر کے واپس آتا اور سودااٹھا کر گھر آ جاتا۔
باپ کو پتہ نہ چلتا کہ بیٹا صرف سودا لے کر آیا ہے یا سودے کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی کر کے آیا ہے حتیٰ کہ امتحان شروع ہو گیا امتحان بھی اس نے سودے کی آڑ میں دے دیا۔ ایف ایس سی کا پرائیویٹ امتحان دیا آپ یقین کریں کہ یہ لڑکا پرائیویٹ امتحان دینے کے بعد لاہور بورڈ میں سیکنڈ آیا۔ جب اخبار میں خبر آئی تو محلے والے اس کے والد کو مبارک باددینے لگے‘ باپ کہتا کہ میرا بیٹا تو پڑھتاہی نہیں وہ تو دکانداری کرتا ہے لوگ کہتے ہیں تیرا بیٹا بورڈ میں سیکنڈ آیا ہے اور والد صاحب کہتے ہیں میرا بیٹا تو پڑھتا ہی نہیں حتیٰ کہ لوگوں نے تسلی دلائی کہ معاملہ یوں تھا‘ پھر کچھ لوگوں نے مل کر چند صاحب حیثیت لوگوں کو صورتحال بتائی اور ان کو کہا کہ اگر آپ اپنی طرف سے کوئی پرائیویٹ سکالرشپ دے دیں تو لڑکا بھی پڑھ جائے گا‘ ماں باپ کو بھی کچھ مل جائے گا چنانچہ اس کے لئے دو تین ہزار روپے کا بندوبست کیا گیا اس سکالرشپ میں سے کچھ تو اس کے ماں باپ کو دیا کہ آپ یہ لیں اور مزے سے بیٹھ کر کھائیں لڑکے کو یونیورسٹی میں داخل کروائیں تاکہ یہ وہاں سے انجینئرنگ کورس کر سکے‘ اس نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا‘ سول انجینئرنگ میں کورس کیا‘ آج وہ لڑکا ایکسین لگا ہوا ہے‘ گاڑی ان کو ملی ہوئی ہے‘ کوٹھی ملی ہوئی ہے اس کے ماں باپ اس کوٹھے میں رہتے ہیں۔ یہ سچا واقعہ ہے اس سے کیا نتیجہ نکلا کہ جب انسان دل میں مصمم ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کام کر گزرتا ہے۔