حضرت عثمان خیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں ان کی ایک دکان تھی‘ ان کی عادت تھی کہ جب کوئی گاہک آتا اور اس کے پاس کبھی کوئی کھوٹا سکہ ہوتا تو وہ پہچان تو لیتے مگر پھر بھی وہ رکھ لیتے اور سودا دے دیتے‘ اس دور میں چاندی کے بنے ہوئے سکے ہوتے تھے‘ وہ سکے گھسنے کی وجہ سے کھوٹے
کہلاتے تھے‘ وہ کھوٹے سکے جمع کرتے رہتے‘ ساری زندگی یہ معمول رہا‘ جب موت کا وقت قریب آیا تو آخری وقت انہوں نے پہچان لیا‘ اس وقت اللہ رب العزت کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے کہ اللہ میں ساری زندگی تیرے بندوں کے کھوٹے سکے وصول کرتا رہا تو بھی میرے کھوٹے عملوں کو قبول فرما لے۔