قریب کے زمانہ میں ہمارے اکابرین علماء دیوبند ارجمند کے علوم میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت عطا کی تھی۔ ایک مرتبہ شیخ الہند رحمتہ اللہ علیہ محمود الحسن نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ بارش کا موسم ابھی ختم ہوا ہے اور بارش کے موسم میں کتابوں کی نمی کی وجہ سے دیمک لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے تو بہتر ہے کہ ہم یہ کتابیں باہر دھوپ میں رکھ دیں اچھی طرح دھوپ لگ جائے گی تو اندر رکھ دیں گے اگر کسی کی جلد خراب ہوئی اور صفحہ درست نہ ہوا تو اسے بھی ٹھیک کریں گے
چنانچہ وہ شاگرد یہ کام کرنے لگ گیا۔ اس زمانہ میں زیادہ کتابیں مخطوطہ ہوتی تھیں شاگرد نے ایک کتاب نکالی اور کہنے لگا۔ حضرت اس کے تو پانچ صفحے دیمک نے چاٹ لئے ہیں حضرت نے فرمایا کہ اس جگہ پانچ چھ صفحات سفید لگا دو‘ اس نے سفید کاغذ لگا کے دھوپ میں رکھ دیا‘ جب خشک ہو گئے تو کہنے لگا‘ حضرت! اب کیا کروں؟ فرمانے لگے بھئی! جو عبارت موجود نہیں ہے وہ اس پر لکھ دو‘ اس نے کہا حضرت! میں نے تو یہ کتاب پچھلے سال پڑھی تھی مجھے تو زبانی یاد نہیں بتاؤ کون سی کتاب ہے؟ اس نے کہا میبذی‘ حالانکہ یہ کتاب چھوٹی سی ہے لیکن مشکل کتابوں میں سے ہے‘ حضرت نے آگے لکھوانا شروع کر دیا‘ اسی جگہ بیٹھے ہوئے عبارت کے کچھ صفحے اپنی یادداشت سے زبانی لکھوا دیئے یہ علم کی برکت تھی‘ کتاب پڑھے ہوئے سالوں گزر جاتے تھے مگر عبارت یاد رہتی تھی۔
بے مثال حافظہ
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ مصر تشریف لے گئے‘ وہاں کتب خانہ میں ایک کتاب نورالایضاح دیکھی‘ پوچھا کیا لے سکتا ہوں؟ کیونکہ ہمارے پاس نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہم نہیں دے سکتے۔ حضرت نے اس کو اچھی طرح دیکھ لیا اور واپس آ کر اس کو زبانی لکھوا دیا جب نقل اصل کے ساتھ ملائی گئی تو کوئی فرق نہ نکلا‘ ان کی لکھی ہوئی کتاب آج مدارس کے طلبہ پڑھ رہے ہیں۔