ابوزرعہ رحمتہ اللہ علیہ ایک محدث گزرے ہیں ان کی محفل میں ایک شاگردآیا کرتا تھا اس کی نئی نئی شادی ہوئی ایک دن محفل ذرا لمبی ہو گئی تو اس کو گھر جانے میں دیر ہو گئی جب وہ رات دیر سے گھر پہنچا تو بیوی الجھ پڑی کہ میں انتظار میں تھی تم نے آنے میں کیوں دیر کی؟ اس نے سمجھایا کہ میں وقت ضائع نہیں کر رہا تھا‘ میں تو حضرت کے پاس تھا‘ وہ کچھ زیادہ غصے میں تھی‘ غصے میں کہہ بیٹھی کہ تیرے حضرت کو کچھنہیں آتا‘ تجھے کیا آئے گا‘ استاد کے بارے میں بات سن کے تو یہ نوجوان بھی بھڑک اٹھا۔
نوجوان لوگ ہوتے تو آگ ہی ہیں تیل لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے ماچس کی ڈبیا ہوتی ہے بس رگڑ لگنے کی دیر ہوتی ہے آگ تو پہلے سے اندر ہوتی ہے نوجوان کا نفس بھی ایسا ہوتا ہے کہ بیچارے بازار سے گزرتے ہیں آنکھ اٹھتے ہی بس رگڑ لگتی ہے اور شہوت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جب بیوی نے یہ کہا کہ تیرے استاد کو کچھ نہیں آتا تجھے کیا آئے گا‘ تو یہ سن کر نوجوان کو بھی غصہ آیا اور کہنے لگا کہ اگر میرے استاد کو ایک لاکھ احادیث یاد نہ ہوں تو تجھے میری طرف سے تین طلاق ہیں۔ اب غصے میں فائرنگ تو دونوں طرف سے ہو گئی۔ صبح اٹھ کر دماغ ٹھنڈے ہوئے تو سوچنے لگے ہم نے تو بہت بڑی بیوقوفی کی۔ بیوی نے خاوند سے پوچھا کہ میری طلاق مشروط تھی اب بتائیں کہ یہ طلاق واقع ہوئی یانہیں؟ اس نے کہا کہ یہ تو استاد صاحب سے پوچھنا پڑے گا اس نے کہا کہ جائیں پتہ کر کے آئیں۔ چنانچہ یہ نوجوان اپنے استاد کے پاس پہنچا اور کہا کہ رات یہ واقعہ پیش آیا۔ اب آپ بتائیے کہ نکاح سلامت رہا یا طلاق واقع ہو چکی ہے ان کے استاد یہ بات سن کر مسکرائے اور فرمانے لگے کہ جاؤ تم میاں بیوی والی زندگی گزارو‘ کیونکہ ایک لاکھ احادیث مجھے اس طرح یاد ہیں کہ جس طرح لوگوں کو سورہ فاتحہ یاد ہوتی ہے۔ سبحان اللہ یہ قوت حافظہ میں برکت تھی جو اللہ تعالیٰ نے عطا کر دی تھی۔