حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی نے ایک واقعہ سنایا کہ حضرت مرشد عالم رحمتہ اللہ علیہ کے اجل خلیفہ حضرت مولانا محمد اسماعیل واڈی دامت برکاتہم انگلینڈ میں ہیں‘ انہوں نے خود ایک واقعہ سنایا چونکہ انہوں نے یہ واقعہ مجھے سنایا اس لئے میں بھی آپ حضرات کو سنانے کی جرأت کر رہا ہوں یہ واقعہ سنتے ہوئے نسبت کی برکت کاخیال رکھیے گا۔
فرمانے لگے کہ میرا ایک بیٹا محمد قاسم ہے (میری بھی ان سے ملاقات ہوئی) کہنے لگے کہ وہ انگریزی پڑھ کر یونیورسٹی میں پروفیسر بن گیا‘ پروفیسر بننے کے بعد اس کے خیالات دہریت کی طرف چلے گئے‘ جب یہاں تک نوبت پہنچ جائے تو پھر نماز روزہ تو دور کی بات ہوتی ہے جس کا وجودِ باری تعالیٰ میں ہی شک پڑ جائے‘ دین میں ہی شک پڑ جائے تو پھر اعمال کرنا تو دور کی بات رہ جاتی ہے‘ گھر کے سارے بچے حافظ‘ قاری اور عالم‘ اور بیٹیاں بھی حافظہ‘ عالمہ فاضلہ مگر ان کا یہ بیٹا دوسروں سے ذرا انوکھا بنا کیونکہ یونیورسٹی کے ماحول میں تعلیم حاصل کی تھی وہ ڈارون تھیوری کے پیچھے لگ گئی جس کی وجہ سے اس کو وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں شک پڑ گیا اور زندگی غفلت میں آ گئی۔
فرمانے لگے کیہ میں نے ایک دن حضرت مرشد عالم رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا‘ حضرت! سارا گھرانہ علماء کا ہے بچیاں بھی عالمہ فاضلہ ہیں مگر یہ بچہ گھر میں ایسا بن گیا ہے کہ اس کا عجیب حال ہے‘ ہمارے دلوں میں ہر وقت دکھ اور غم ہے اس کی والدہ بھی روتی ہے اور میں بھی روتا ہوں‘ مہربانی فرما کر کوئی ایسی دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو بدل دے۔ حضرت مرشد عالم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ وہ مجھ سے بیعت کر لے‘ اب اس کو والد صاحب نے سمجھایا کہ بیٹا! تم بیعت کر لو اس نے جواب دیا کہ جب میں نے نماز ہی نہیں پڑھنی تو مجھے بیعت ہونے کا کیا فائدہ؟ مولانا نے حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پھر عرض کیا کہ حضرت! میرا بیٹا کہتا ہے کہ میں نے جب نہ نماز پڑھی ہے اور نہ قرآن پڑھنا ہے تو پھر بیعت کا کیا فائدہ؟ حضرت نے فرمایا کہ کیا میں نے اس سے کہا ہے کہ وہ نماز پڑھے اور قرآن پڑھے۔ میں نے تو صرف یہ کہ اہے کہ بیعت کر لے‘ یہ ایک عجیب بات ہے جو عام بندے کو سمجھ نہیں آتی۔
اگلے دن اس کے والد نے پھر کہا بیٹا! یہ بزرگ ہمارے ہاں تشریف لاتے ہیں تمہاری سب بہنیں اور بھائی ان سے بیعت ہیں میں بھی بیعت ہوں‘ تم بھی بیعت ہو جاؤ‘ اس طرح ہمارے گھر کے سب افراد بیعت ہو جائیں گے۔ اس نے کہا ابو! میں نے کرنا تو کچھ ہے نہیں باپ نے کہا‘ بیٹا! تم کچھ نہ کرنا‘ صرف بیعت ہو جاؤ اس نے دل میں سوچا کہ چلوابو راضی ہو جائیں گے اس لئے میں بیعت ہو ہی جاتا ہوں اب اس نوجوان کو کیاپتہ تھا کہ کسی اللہ والے کے ہاتھ میں دے کر جو چند کلمات پڑھ لئے جاتے ہیں وہ بندے کے دل کی دنیا بدل کر رکھ دیا کرتے ہیں وہ اس راز سے واقف نہیں تھا چنانچہ کہنے لگا اچھا جی میں بیعت ہو جاتا ہوں اس نے اگلے دن حضرت کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
بیعت ہونے کے بعد اس کے دل کی سوچ بدلنا شروع ہو گئی۔ اس نے حضرت کی صحبت میں بیٹھنا شروع کر دیا‘ حضرت سے محبت ہونا شروع ہو گئی۔ نمازیں بھی شروع ہو گئیں‘ تلاوت بھی شروع ہو گئی‘ زندگی کے لیل ونہار بدلنا شروع ہو گئے‘ حتیٰ کہ اس نے علم پڑھنا شروع کر دیا‘ تہجد گزار بن گیا‘ اتنا ذاکر شاغل بنا کہ اس کو چند سالوں کے بعد ہمارے حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے خلافت عطا فرما دی ‘وہ وجوان جو دہریہ تھا اور خدا بیزار ذہنیت کا مالک تھا اس پر صرف بیعت کے چند کلمات پڑھنے کا اتنااثر ہوا کہ اس کے دل میں عشق الٰہی کاایسا شعلہ پیدا ہوا کہ بالآخر ہمارے حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے اس کواجازت و خلافت عطا فرمائی۔ اس عاجز کی ان سے ملاقات ہوئی اور وہاں ری یونین میں لوگوں نے بتایا کہ ان کی وجہ سے سینکڑوں نوجوان کفر سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔
نسب بیعت سے دل کی کایا پلٹ گئی
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں