حضرت حبیب عجمی رحمت الله علیہ شروع میں بڑے مال دار اور اور اپنا مال سود پر اہل بصرہ کو دیا کرتے تھے اور ہر روز اپنے لین دین کے تقاضے کے لئے جایا کرتے تھے اور جب تک جن سے کچھ لینا ہو وصول نہ کر لیتے نہ ٹلتے تھے۔ ایک روز اپنے مال کی طلب کے لئے ایک گھر میں گئے وہ قرض دار گھر میں نہ تھا اس کی بیوی نے کہا کہ میرا خاوند گھر میں نہیں اور میرے پاس کچھ نہیں۔
ہاں میں نے آج ایک بھیڑ ذبح کی تھی اس کی گردن میرے پاس ہے وہ اگر آپ چاہیں تو لے جائیں۔ آپ نے کہا اچھا دے دو۔ اس عورت نے وہ گردن آپ کو دے دی۔ اور آپ وہ سری لے کر اپنے گھر آئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ سری سود میں آئی ہے پکاؤ۔ بیوی نے کہا روٹیاں اور لکڑیاں نہیں ہیں آپ نے کہا میں ابھی جا کر سود میں روٹیاں اور لکڑیاں لے کر آتا ہوں۔ آپ اسی طرح گئے اور کسی قرض دار سے روٹیاں اور لکڑیاں لے آئے۔ بیوی نے ہانڈی چڑھائی جب ہانڈی پک گئی تو چاہا کہ پیالے میں نکالے کہ ایک سائل نے دروازے پر آ کر سوال کیا اور راہ خدا میں کچھ مانگا۔ حبیب کہنے لگے واپس جاؤ اس لئے کہ تجھے جو کچھ ہم دیں گے تو اس سے امیر نہ ہو جائے گا۔ مگر ہم فقیر ہو جائیں گے۔ سائل لوٹ گیا۔ حضرت حبیب کی بیوی نے جو ڈوئی ہانڈی میں ڈالی تو کیا دیکھتی ہے کہ اس میں سب خون ہی ہے۔ اپنے خاوند کو بلایا اور دکھا کر کہنے لگی دیکھئے یہ آپ کی بد بختی سے کیا ہو گیا۔ آپ نے جب یہ حال دیکھا تو دل پر ایک ایسا اثر ہوا کہ آپ کے دل کی حالت بدل گئی اور کہنے لگے اے میری بیوی تو گواہ رہ کہ میں نے آج ہر برے کام سے توبہ کر لی پھر آپ باہر نکلے تا کہ قرض داروں کو تلاش کر کے اپنا مال و زر ان سے واپس لیں اور پھر سود پر نہ چلائیں۔
جمعہ کا روز تھا اور لڑکے کھیل رہے تھے ان لڑکوں نے جب حضرت حبیب کو دیکھا تو کہنے لگے دیکھو سود خور آ رہا ہے الگ ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ اس کے پاؤں کی گرد ہم پر پڑے اور ہم بھی اسی طرح بد بخت ہو جائیں۔ جب یہ آواز حضرت حبیب کے کانوں تک پہنچی تو بڑے رنجیدہ ہوئے اور سیدھے حضرت حسن بصری رحمتہ علیہ کی مجلس میں پہنچے۔
حضرت حسن نے ان کو کچھ پندو نصائح بیان کیں تو حضرت حبیب کی کایا پلٹ گئی اور جب وہاں سے نکلے تو اللہ کے محبوب بن کر نکلے۔ واپس آتے ہوئے آپ کا ایک مقروض آپ کو دیکھ کر بھاگا تو آپ نے اسے آواز دی اور فرمایا بھائی اب تو مجھ سے نہ بھاگ۔ اب مجھے تجھ سے بھاگنا چاہہئے۔ یہ کہا اور گھر کی طرف لوٹے۔ راستے میں پھر وہی لڑکے کھیلتے ملے تو انھوں نے جب حضرت حبیب کو دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ الگ ہو جاؤ حبیب توبہ کر کے آ رہا ہے۔
اب جو ہماری گرد اس پر پڑ گئی تو ایسا نہ ہو کہ ہم گنہگار ہو جائیں۔ حضرت حبیب نے یہ جملہ سنا تو کہنے لگے اے رب غفور! عجب تیری رحمت ہے کہ اس ایک روز میں جو تجھ سے صلح کی تو اس کا اثر مخلوق کے دل میں پہنچا دیا اور میری نیک نامی مشہور فرما دی۔ پھر آپ نے آواز دی کہ جس نے حبیب کا کچھ دینا ہو وہ آئے اور اپنی دستاویز واپس لے جائے۔ یہ آواز سن کر سب مقروض جمع ہو گئے اور آپ نے جو مال جمع کیا تھا وہ لوگوں میں بانٹ دیا یہاں تک کہ آپ کے پاس کچھ باقی نہ رہا۔