حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ ایک قاری صاحب جو ہمارے پیر بھائی، اور ہمارے حضرتؒ کے قریبی اور بڑے خادم تھے، مدینہ منورہ میں ان کا گھر تھا اللہ نے ان کو کثیر الاولاد بنایا، ان کے نو بیٹے ہوئے، بیٹیاں اس کے علاوہ، ماشاء اللہ انہوں نے سب کو نیکی پر لگایا، ہر بچہ ان کا عالم، حافظ، قاری، مفتی بنا، جب حضرت مرشد عالمؒ دنیا سے تشریف لے گئے،
تو چند سالوں کے بعد ایک مرتبہ مسجد نبوی میں میرے سامنے قاری صاحب تشریف لائے، چہرے پر بہت ہی افسردگی کے آثار نظر آتے تھے، میں نے پوچھا قاری صاحب خیر تو ہے؟ کہنے لگے آج بہت پریشان ہوں، میں نے پوچھا، کس بات پر؟ انہوں نے کہا کہ بڑا بیٹا مفتی بن گیا جوان ہو گیا، اور اتنی بڑی فیملی صرف تین کمروں کے گھر میں رہتی ہے، اب اس کی شادی کرنی ہے، ہمارے پاس کوئی کمرہ نہیں کہ اس بچے کو شادی کرکے وہ کمرہ دے دیں۔سعودی عرب میں شادی کاخرچہ لڑکی والوں کے بجائے لڑکے والوں کو کرنا پڑتا ہے، ہمارے یہاں تو لڑکی والے جہیز بنائے، خرچ کرے، ہر قسم کا بوجھ اٹھائے، اسی وجہ سے بچی کی پیدائش سے بعض لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، وہاں الٹا معاملہ ہے لڑکی والوں کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا، تمام خرچہ لڑکے والے اٹھاتے ہیں۔۔۔ تو کہنے لگے ہم اس ملک میں شادی کا پورا خرچہ کہاں سے اٹھائیں، میری تو تنخواہ اتنی کہ مشکل سے گھر کی دال روٹی مل جاتی ہے، اس سے زیادہ تو کچھ ہے نہیں۔عجیب اتفاق کہ آج میرا ایک دوست آیا اور اس نے مجھے آ کر بہت جلی کٹی سنائی، اس نے کہا بڑے مولوی بنے پھرتے ہو، کیا کیا تم نے؟ تمہاری مَت ماری گئی، تم دو کو مُلا بنا دیتے خوش ہو جاتے، اس کے علاوہ کسی کو انجینئر بناتے، کسی کو ڈاکٹر بناتے، کسی کو بزنس مین بناتے، تو آج یہ بچے کمانے والے ہوتے، تمہارا بوجھ اٹھاتے،
تم جیسا بھی کوئی بے وقوف ہو گا کہ سب کو ہی مُلا، مولوی بنا دیا، اب یہ نہ کما سکتے ہیں نہ خود کھا سکتے ہیں نہ تمہیں کھلا سکتے ہیں، اب بیٹھ کر روؤ، وہ میرا بچپن کا دوست تھا، اتنا اس نے میرا دل توڑا کے مجھے محسوس ہونے لگا کہ شاید میں کوئی بڑا جرم کر بیٹھا، اس نے کہا اب جاؤ تلاش کرو اپنے بیٹے کے لیے رشتہ، جوتیاں چٹخا چٹخا کر بھی بیٹھ جاؤ گے، تو بھی رشتہ نہیں ملے گا،
تو اس کی باتوں سے میں زیادہ ڈپریشن میں آ گیا، لہٰذا آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچے کا معاملہ آسان کر دے، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم سرکار کی خدمت میں سلام پیش کرنے کے لیے جا رہے ہیں، آئیے آپ بھی چلئے، دعا کر دیجئے، ہم لوگ گئے سلام پڑھا دعا کی۔اگلے دن مسجد نبوی میں عشاء کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے کہ قاری صاحب مٹھائی کا ایک ڈبہ لے کر مسکراتے ہوئے تشریف لائے،
ہم نے پوچھا قاری صاحب کیا ہوا؟ کہنے لگے بس اللہ کی عجیب رحمت ہوئی، کیاہوا؟ کہنے لگے کہ ہمیں پتہچلا کہ ایک پاکستانی انجینئر تھے جو ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے، ان کے گھر میں بیٹی جوان ہے، جو پڑھی لکھی خوبصورت، خوب سیرت بہت ہی اچھی بچی ہے، کسی کے بتانے پر میں اپنی بیوی کولے کر ان کے گھر گیا، جب میری بیوی ان کے گھر گئی تو دومنٹ کے اندر اس نے پیغام بھیجا کہ میں آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں،
میرا دل گھبرا گیا کہ انہوں نے میری بیوی کو نکال دیا کیا؟ یا نفی میں جواب دے دیا کیا؟ میں اپنی بیوی سے ملا پوچھا کیا ہوا؟ میری بیوی کا سانس پھولا ہوا تھا،کہنے لگی ہو گیا۔۔۔ ہوگیا، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگی سب ہوگیا۔۔۔ سب ہوگیا، میں نے کہا، اللہ کی بندی بتاؤ تو سہی کیا ہوا؟ اپنے سانس پر قابو پاتے ہوئے کہنے لگی کہ بات یہ ہے کہ اتنی خوبصورت بچی ہے کہ میں کبھی زندگی میں تصور نہیں کر سکتی تھی،
جب اس کی ماں سے بات کی تو ماں نے کہا کہ میرا خاوند دین دار تھا اور اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ ہر بیٹی کا رشتہ میں کسی دین دار عالم سے کروں، چونکہ میرے خاوند کی وصیت ہے اس لیے میں تو کسی عالم سے ہی کروں گی، کہنے لگی کہ ایک بات اور بتاؤں؟ میں نے کہا بتا دو، پھر خاموش ہو گئی، میں نے پوچھا بتایا کیوں نہیں؟ کہنے لگی، الحمداللہ ہمارے نو بیٹے ہیں اور اس کی بھی نو بیٹیاں ہیں،
اور ہر بیٹی ہمارے بیٹے سے دو سال چھوٹی ہے، ہم نے نو کی منگنی کر دی، ایک بڑا ہوگاہم ان کی شادی کر دیں گے، اگلے بڑے ہوں گے ان کی شادی کر دیں گے، میں آج دومنٹ میں نو بچوں کی منگنی کرکے آ گئی۔دیکھا آپ نے اللہ پاک جب نیک لوگوں کی سرپرستی اور ذمہ داری لیتے ہیں تو کس طرح کام بنا دیتے ہیں اور جب خدا کی مدد نہیں ہوتی تو ایک ہی بیٹی کیوں نہ ہو مگر اس کا رشتہ نہیں آتا،
اس وقت ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہے یہ ماں باپ ہی بہتر جانتے ہیں، پریشان ہوتے ہیں، کہتے حضرت کیا کریں ہمارے یہاں آنسو نہیں تھمتے، ہم میاں بیوی چھپ چھپ کے روتے ہیں، بیٹی کا رشتہ مصیبت بن جاتا ہے، لیکن جب اللہ کی مدد آتی ہے تو چند منٹ میں نو بچوں کے رشتے طے ہو جاتے ہیں اور اللہ پاک ’’و ھو یتولیٰ الصالحین‘‘ کا مشاہدہ کرا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا سرپرست ہے۔