جگر ایک عظیم شاعر تھے‘ ان کی ابتدائی زندگی بڑی غافلانہ تھی‘ خوب پیتے تھے وہ مئے نوش نہ تھے بلانوش تھے مشاعروں میں کہیں حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب کے ساتھ ملنا جلنا ہوا‘ حضرت اقدس تھانویؒ کے خلیفہ مجاز تھے‘ اس وقت حضرت مجذوب محکمہ تعلیم میں کلیکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اتنی اچھی دنیاوی تعلیم مگر چونکہ گھنڈی کھل چکی تھی
لہٰذا درویشی غائب تھی ایسے ایسے اشعار کہے جیسے موتیوں کو انہوں نے مالا میں پرو دیا ہو۔استاد جگر ان کی فقیرانہ زندگی سے بڑے متاثر ہوئے ۔ ایک دفعہ جگر صاحب کہنے لگے۔جناب! آپ سے مسٹرکی ’’ٹر‘‘ کیسے ’’مس‘‘ (Miss) ہوئی‘انہوں نے کہا تھانہ بھون جا کر کبھی میں بھی جاؤں گا‘ حضرت نے فرمایا بہت اچھا‘ اب حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمتہ اللہ علیہ نے محنت کرنا شروع کر دی‘ صادقین کی صحبت کے بارے میں تفصیلات سے بتانا شروع کر دیں۔ ایک دفعہ انہوں نے پوچھا‘ سنائیے حضرت! کیا حال ہے؟ حضرت خواجہ صاحب نے عجیب اشعار سنا دیئے۔پنشن ہو گئی ہے کیا بات ہے اپنیاب دن بھی اپنا اور رات بھی اپنیاب اور ہی کچھ ہے میرے دن رات کا عالمہر وقت ہی رہتا ہے ملاقات کا عالمجب انہوں نے یہ اشعار سنے تو دل میں سوچنے لگے کہ ان کے دل میں محبت الٰہی اتنی بھری ہوئی ہے تو ان کے شیخ کے دل کا کیا عالم ہو گا۔ چنانچہ کہنے لگے تھانہ بھون تو جاؤں گا لیکن میری ایک شرط ہے فرمایا وہ کونسی؟ کہنے لگے کہ وہاں جا کر بھی پیؤں گا‘ یہ میری عادت ہے اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ حضرت مجذوب نے فرمایا میں حضرت سے پوچھوں گا‘ پیرو مرشد کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا کہ حضرت ایک بندہ بڑے کام کا ہے آنا بھی چاہتا ہے مگر شرط لگاتا ہے کہ یہاں آ کر بھی پیؤں گا۔ حضرت نے فرمایا کہ بھئی!
خانقاہ تو عوامی جگہ ہے یہاں پر ات بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ شراب تو معصیت (گناہ) ہے البتہ میں اسے اپنے گھر میں مہمان کی حیثیت سے ٹھہرا لوں گاکیونکہ مہمان کو اپنی ہر عادت پوری کرنے کی اجازت ہے کافر کو بھی مہمان بنا سکتے ہیں چنانچہ جگر صاحب وہاں تیار ہو کر پہنچ گئے وہاں جا کر پینا تو کیا حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے چہرے کو دیکھتے ہی بات دل میں اتر گئی کہنے لگے‘ حضرت تین دعائیں کروانے آیا ہوں۔ حضرت نے پوچھا وہ کونسی؟
کہنے لگے پہلی دعا یہ کیجئے کہ میں پینا چھوڑ دوں‘ حضرت نے دعا فرما دی‘ دوسری دعا یہ کیجئے کہ میں داڑھی رکھ لوں‘ حضرت نے یہ بھی دعا فرما دی‘ تیسری دعا کیجئے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو جائے۔ حضرت نے یہ دعا بھی فرما دی۔ سبحان اللہصحبت اور شیخ کی توجہ رنگ لاتی رہی‘ چنانچہ اسی محبت و عقیدت کے ساتھ حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت کاتعلق قائم کر لیاجب واپس ہوئے تو زندگی بدلنا شروع ہو گئی۔