شیر شاہ سوری کا دور نظم و نسق کے لحاظ سے ایک مثالی دور تھا۔ اس کے دور میں کوئی جاگیردار یا زمیندار کسی بھی کاشت کا رپر زیادتی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اپنے امرا اور اعیان سلطنت کو ہر لمحہ عدل و احسان کی تلقین کرتا اور رعایا کو حقیر جاننے سے روکتا رہتا۔ جوں ہی کوئی مظلوم کمزور اور بے بس آدمی اس سے فریاد کرتا وہ ہر کام چھوڑ کر اس کی فریاد سنتا۔ اس نے اپنے پہرہ داروں کو یہ مستقل حکم دے رکھا تھا کہ جب بھی کوئی مظلوم ہمارے دروازے پر آئے اور ہمیں پکارے خواہ کوئی بھی وقت ہو اور ہم کیسے بھی مصروف ہوں اسے ہمارے پاس لے آؤ۔
وہ کہا کرتا کہ میرے نزدیک ظالم سب سے بڑا مجرم اور سب سے بڑا گنہگار ہے۔ بادشاہ رعایا کا نگہبان ہوتا ہے اور اس پر اپنی رعایا کے ایک فرد کی حفاظت لازم ہے اگر میں یہ ذمے داری نہ نبھاؤں گا تو خدا کے ہاں کیا جواب دوں گا۔ اس ذمے داری کو نبھانے کے لئے اس نے پوری قلمرو کو ایک لاکھ سولہ ہزار پر گنوں میں تقسیم کیا تھااور ہر پر گنہ کی دیکھ بھال کے لئے ایک فر ض شناس، شقدار، ایک افسر مال، ایک محتسب ایک بڑے قاضی اور ایک بڑے حساب دان کو مقرر کیا تھا۔ کیا مجال تھی کہ ان احکام میں سے کوئی حاکم رعایا کے ساتھ زیادتی کر پاتا۔ اس نے قابل اعتماد پرچہ نویس مقرر کر رکھے تھے جو اسے ہر حاکم کی حرکت سے باخبر رکھتے تھے۔ اس نے ہر ہر علاقہ میں وہاں کے معتبر آدمی کوبحیثیت مقدم کے مقرر کیا تھا جو علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ اگر کسی جگہ قتل ہو جاتا یا ڈاکہ پڑجاتا تو قاتلوں اور ڈاکوؤں کا سراغ لگانا ان کی ذمہ داری تھی۔ اس سختی اور انتظام نے ملک سے قتل و راہزنی کا نام و نشان مٹا دیا تھا اور لوگ چین اور اطمینان سے زندگی گزارتے تھے۔ ایک دن شیر شاہ سوری کےسامنے ایک قتل کا مقدمہ پیش ہوا جس میں قاتل کا سراغ نہیں مل رہا تھا یہ قتل اٹاوہ کے کسی علاقے میں ہوا تھا۔ شیر شاہ سوری نے مقدمے کی سماعت کی۔ اس نے اٹاوہ کے شقدار کو حکم بھیجا کہ جس علاقے میں قتل ہوا ہے اس کے آس پاس واقع کسی درخت کو دو آدمی بھیج کر کٹوائے اور جو سرکاری عامل اس درخت کے کاٹنے کی اطلاع پا کر آئیں انہیں پکڑ کر ہمارے پاس بھیج دو۔ شقدار نے شاہی فرمان کے مطابق دو آدمی درخت کاٹنے کے لئے موقعہ واردات پر بھیجے۔ وہ ابھی درخت کاٹ ہی رہے تھے کہ علاقے کے مقدموں اور معتبروں نے انہیں موقع پر آن پکڑا۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس اشخاص نے درخت کاٹنا چھوڑ دیا اور ان معتبروں کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے ان سے دریافت کیا کہ تمہیں درخت کٹنے کی خبر تو ہو گئی لیکن ایک انسان کی گردن کٹ گئی اور تم اس سے بے خبر رہے۔ میں اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ تین دن کے اندر اند ر قاتل کو پیش کرو ورنہ سزا میں تم قتل کر دیئے جاؤ گے۔ معتبروں کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور تیسرے دن کا سورج ابھی طلوع بھی نہ ہوا تھا کہ “قاتل شاہی دربار کے دروازے پر زنجیر و سلاسل میں جکڑے ہوئے حاضر تھے” عدل و انصاف کی اسی پاسداری کی وجہ سے برصغیر کا ہر دیانت دار مورخ شیر شاہ سوری کا نام ادب سے لیتا ہے۔