اسلام آباد (این این آئی)ایوان صدر نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کے معاملے پر صدر مملکت کے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں۔ایوان صدر کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ روز کے واضح بیان کے پیش نظر ایوان صدر نے صدر مملکت کے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ایوانِ صدر نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کے نام خط میں کہا کہ صدر مملکت کے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں لہٰذا ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں’۔ایوان صدر نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی 22 گریڈ کی افسر حمیرا احمد کو صدر مملکت کی سیکریٹری تعینات کیا جائے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاک آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 کی منظوری کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری تردید بیان میں کہا تھا کہ خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا تھا کہ میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ (دستخط کے بغیر) واپس بھجوائے جاچکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں، تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔انہوں نے لکھا تھا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔
وزارت قانون و انصاف نے صدر مملکت کے اس بیان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو بل کی منظوری دیں یا مخصوص تحفظات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔بیان میں کہا گیا کہ اس فوری نوعیت کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔کہا گیا تھا کہ بلز پر تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔اگر صدر مملکت کو بلز پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسے کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔
وزارت قانون نے کہا تھا کہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ صدر مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا، صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔واضح رہے 20 اگست کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 پر دستخط کردیے، جس سے دونوں مجوزہ بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔دونوں بلوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اور چند ہفتے قبل حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کی شدید تنقید کے باوجود منظوری کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا تھا۔
سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 6 (اے) انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت کے غیر مجاز انکشاف کو جرم قرار دیتا ہے، اس جرم کی سزا 3 سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گی۔آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات افشا کرے گا، جو پاکستان یا مسلح افواج کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ ہو یا ہو سکتی ہو، اسے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوگی۔
ایکٹ میں شامل ترامیم آرمی چیف کو مزید اختیارات دیتی ہیں اور سابق فوجیوں کو سیاست میں شامل ہونے یا ایسے منصوبے شروع کرنے سے روکتی ہے جو فوج کے مفادات سے متصادم ہو سکتے ہوں، اس میں فوج کو بدنام کرنے پر قید کی سزا بھی تجویز کی گئی۔آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا ملازمت سے برطرفی کے 2 برس بعد تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔