اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سیاست دانوں کی کرپشن اور کک بیکس کے حوالے سے مجھے اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی نے بتایا ،ہمیشہ سمجھتا رہا ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ملک کی
زیادہ فکر ہوگی، وہ جب چوری دیکھیں گے تو ردعمل دیں گے،کسی پر سازش کا الزم نہیں دیتے ہیں ،اسٹیبلشمنٹ نے ان کو مسلط ہونے کیوں دیا؟، نیوٹرلز اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں ابھی وقت ہے،شہباز گل نے ایک جملہ کہا جو نہیں کہنا چاہیے تھا، سوشل میڈیا کے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے،تحریک انصاف کو توڑنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں،مشرق وسطیٰ میں آزادی رائے نہیں۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں ہمیشہ سمجھتا رہا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ملک کی زیادہ فکر ہوگی، وہ جب چوری دیکھیں گے تو ردعمل دیں گے، کیونکہ میں جب جدوجہد کر رہا تھا تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے، کئی دفعہ آئی ایس آئی نے بتایا کہ انہوں نے اتنی چوری کی ہے۔عمران خان نے کہا کہ ان کا 2008 کے بعد کا دور بھی اتنی چوری کی اور چین جا کر کک بیکس لیے اور سلیمان شہباز کک بیکس اور معاہدے کرنے چین پہنچا ہوا ہے تو یہ ساری معلومات مجھے ان سے آئیں۔انہوں نے کہا کہ جب میں وزیراعظم بنا تو سب کو پتا تھا ان کے مقدمات کا لیکن بدقسمتی سے نیب ہمارے کنٹرول میں نہیں تھی، اس وقت بھی میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مضبوط کیسز ہیں کیوں نہیں چل رہے لیکن بعد میں پتا چلا ان پر شفقت کا ہاتھ تھا۔انہوںنے کہاکہ وہ کبھی ایکسلیٹر دبا دیتے تھے تو پھر کبھی واپس آجاتا تھا،
ہم تماشا دیکھ رہے ہیں اور گالیاں ہمیں پڑ رہی تھیں کیونکہ وہ کسی کو نیب لے کر جاتے تھے تو مجھے گالیاں نکالتے تھے۔انہوں نے کہا کہ میرے ہاتھ میں نیب ہوتی تو کم از کم 15 سے 20 لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر ان سے اربوں روپے نکال لیتے۔عمران خان نے کہا کہ چلیں ہم کسی کو الزام نہیں دیتے کہ وہ ایک سازش کا حصہ تھے تاہم میں اسٹیبلشمنٹ سے سوال پوچھتا ہوں کہ آپ نے ان لوگوں کو کیسے ملک
کے اوپر مسلط ہونے دیا حالانکہ آپ خود کہتے تھے کہ کتنی چوری ہے، اس کا یہ مطلب ہے کہ چوری آپ کے لیے بری چیز نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری کے حوالے سے ہر کسی کی اپنی رائے ہے وہ ٹھیک ہوسکتی ہے کیونکہ مختلف اقدامات ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب ہماری اسٹیبلشمنٹ کو پتا تھا کہ 30 سال سے یہ ملک لوٹ رہے ہیں، مجھے انہوں نے دکھایا تو سوال پوچھتا ہوں کہ ان کا راستے
کیوں نہیں روکا، اگر ملک کی فکر ہے تو کیسے ان کو اجازت دیتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس پاور ہے، پاور کے ساتھ ذمہ داری آتی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ پاور آپ کے پاس اور ذمہ دار کسی اور کے پاس ہو، پاور اور اتھارٹی ساتھ ساتھ جاتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ جب یہ اوپر آئے ہیں تو آپ جتنا مرضی کہیں نیوٹرل ہیں لیکن تاریخ میں لوگ آپ پر الزام لگائیں گے جو ملک کے ساتھ کیا ہے، تاریخ
لکھی جارہی ہے کہ کیسے آپ نے ان لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط ہونے دیا۔انہوںنے کہاکہ اب کوشش کی جارہی ہے ہم بھیڑ بکریوں کی طرح اس سیٹ اپ کو تسلیم کریں اور اس کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، سوشل میڈیا کے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی نے فوج کے خلاف ٹوئٹ کی ہے تو ان کو اٹھا کر یہ نہیں کہتے معافی مانگو بلکہ کہلواتے ہیں عمران خان نے ہم سے ٹوئٹ کروایا،
بچوں کو اٹھایا ہوا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر شہباز گل سے اگر ایک جملہ نکل گیا جو اس کو نہیں کہنا چاہیے تھا جس کو غلط سمجھا جاسکتا ہے تو اے آر وائی کا کیا قصور تھا اور کیسے بند کردیا۔انہوں نے کہا کہ اے آر وائی کو اس کی وجہ سے بند نہیں کیا گیا، شہباز گل نے جو کہا اس کا مجھے پہلے دو دن تک پتا نہیں چلا، جب ہمارا وکیل مل کر آیا تو تب پتا چلا کہ اس بیچارے کے ساتھ کیا گیا، اس کو ننگا
کرکے مارا گیا، ایک انسان کی عزت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ منصوبہ بنارہے ہیں کسی طرح تحریک انصاف ٹوٹ جائے، ہمارے لوگوں، اراکین اسمبلی اور سینئرز کو فون کر رہے ہیں اور خوف پھیلا رہے ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شہباز گل سے پوچھ رہے ہیں عمران خان کھاتا کیا ہے، ان کو میری ڈائٹ فکر نہیں ہے، شہباز شریف کے کیس میں ایف آئی اے کے 4 گواہ تھے وہ دو مہینے کے اندر دل کا
دورہ پڑنے سے وفات پا گئے ہیں، ان کو کھانے کا پتا تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کھاتے کیا ہیں پتا ہو تو پھر ان کو کیسے ٹھکانے لگاتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ اپنے نیوٹرلز کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کو ملک کی فکر ہے، جب تک سیاسی استحکام نہیں ہو معیشت بحال ہوسکتی ہے، جب کسی کو نہیں پتا ہو ایک مہینے یا دو مہینے میں کیا ہوگا تو معیشت کیسے بحال ہوگی۔انہوں نے کہا کہ نیوٹرلز
سے کہتا ہوں کہ ابھی بھی وقت ہے، اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، بند کمروں میں بعض اوقات فیصلے ہوتے ہیں وہ فیصلے اچھے نہیں ہوتے ہیں۔عمران خان نے کہاکہ آپ کو سوچنا چاہیے اور نظرثانی کرنی چاہیے اگر اس وقت صحیح فیصلے نہیں ہوں گے اور اگر کوئی ان کے نیچے زبردستی رکھنا چاہے اور مجھے کوئی کہے کہ ان کے نیچے زندگی گزارنی ہے تو میں سمجھوں گا موت بہتر ہے بجائے ان چوروں
کے نیچے زندگی گزاروں۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں حقیقی آزادی کی بات کرتا ہوں تو میں چاہتا ہوں کہ قوم آزاد ہو، صرف آزاد قوم اوپر جائے گی۔انہوں نے کہا کہ قوم اس وقت تک آزاد نہیں ہوگی جب تک معاشرے میں آزادی رائے سمجھیں، مجھے کہتے ہیں اپنے دور میں سختیاں کی تو میں یقین دلاتا ہوں مجھے کبھی آزاد میڈیا سے خوف نہیں ہوا۔انہوںنے کہا کہ مشرق وسطیٰ جہاں بادشاہت ہے وہاں کوئی
آزادی رائے نہیں ہے کیونکہ وہ لوگوں پر کنٹرول چاہتے ہیں، کرپٹ سیاست دانوں کو اس لیے خوف ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے کرپشن کی ہوتی ہے یا قانون توڑنے ہوتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ مجھے صرف ایک مسئلہ ہے کہ آزادی رائے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی توہین کریں اور ان کی کردار کشی کریں، ہر کسی کی پگڑی نہیں اچھال سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ چیک اور بیلنس ہے، لوگوں کو اپنی عزت بحال کرنے کا موقع ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو انصاف نہیں ملتا ہے تو عام آدمی کو کیا ملے گا۔