لاہور( این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کہاہے کہ پراجیکٹ عمران کے سہولت کاروں کو آج بھی چین نہیں آیا ،اس کے سہولت کار آج بھی ارد گرد منڈلا رہے ہیں آج بھی اداروں کے اندر موجود ہیں، ہماری چار مار کی اس حکومت کو کام نہیں کرنے دیاگیا ،پنجاب میں حمزہ شہباز
کو پائوں نہیں لگنے دئیے گئے ،بعض لوگ نیوٹرل ہونے کے لئے تیار نہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے فیصلے آئے ہیں جو فیصلے آئین سے متصادم ہیں، آئین بنانے کا حق پارلیمنٹ کو ہے، آئین لکھنے کا حق محترم عدالت کو نہیں ،تریسٹھ اے پر معزز عدالت کی رائے آئین سے متصادم ہے ، اسے سارے ججز مل کر سنیں اور پنجاب کے کیس کو بھی اس میں سنا جائے ،ہمیں دیوار سے لگانے کی سازش بند کی جائے ، ہمیں دھکیل کر نکالا گیا تو الیکشن نہیں آئے گا ،عمران خان جھوٹ کا بیانیہ بند کرو ورنہ گلیوں میںرلتے رہو گے ،پاکستان میں الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے اور اگر وقت سے پہلے ہوں گے تو اس کا فیصلہ کوئی اور نہیں کرے گا پاکستان کے سیاستدان کریں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کال پر وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے اظہار یکجہتی کے لئے لبرٹی چوک میں مظاہرہ کیا گیا جس میں پارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنمائوں کی قیادت میں کارکنوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے و پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ آج ہم یہاں آئین ،جمہوریت ،ووٹ کی عزت اور حمزہ شہباز سے اظہار یکجہتی کے لئے یہاں آئے ہیں ۔یاد دلانا چاہتا ہوں پراجیکٹ عمران 2011میں لانچ کیا گیا ،2022 آ گیا ہے ،آج بھی ریاستی اداروں میں موجود پراجیکٹ عمران کے سہولت کار آرام سے نہیں بیٹھے ،
مجھے بتائیں 2018ء میں آر ٹی ایس بند کر کے نتائج لئے گئے ۔ ووٹ کو چوری کیا گیا ۔ جب ووٹ چوری کیا گیا اس کے باوجود پنجاب میں ہماری اکثریت آ گئی ، ہماری اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا ، پنجابیوں کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ، ہم چاہتے تو لانگ مارچ کرتے ، دھرنے سے عمران کو گراتے ، ہم نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا لیکن پاکستان کو عدم استحکام کا شکار ہونے کی بچانے کے لئے اپنی بات تو کرتے رہے لیکن سرخ لکیر عبور نہیں کی ،
ہماری قیادت اور رہنمائوں کو جیل میں رکھا گیا ، اس بات کا جواب دیں کہ کیا ملا آپ کو ، کون سی کرپشن ملی، کوئی کرپشن نہیں تھی، صرف ہمارا جرم تھا کہ ہم بولتے تھے ۔ ہم نے 2008ء میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کیا ان کی حکومت آئی تو ہم اپوزیشن میں بیٹھ گئے ، پانچ سال پورے ہوئے ہم نے اقتدار پر چھاپہ نہیں مارا ، 2013ء میں جانے والی حکومت کو عزت کے ساتھ الوداع کیا ، وہ اپوزیشن میں آگئے انہوں نے بھی ذمہ دارانہ اپوزیشن کی ،
دس سال ملک میں جمہوریت چلی، چلتی جمہوریت بعض لوگوں کو اچھی نہیں لگتی ، چلتی جمہوریت کو روکنے کیلئے ، داغدار کرنے کے لئے ،چور کا بیانیہ بنانے کے لئے پراجیکٹ عمران لانچ کیا گیا جسے حاجی بنا کر پیش کیا گیا ، سب سے گنہگار اور غلیظ سیاست کرنے والے کو قوم پر مسلط کیاگیا ، ہم نے احتجاج بھی کیا ، ہم نے برداشت بھی کیا ، جب عدم اعتماد کا فیصلہ کیا تو کیا گناہ کیا ، دھرنے سے حکومت گراتے ، دھرنوں سے گراتے تو
پھر حکومتیں دھرنوں سے گرا کرتیں ، ہم نے دھرنوں کا راستہ نہیں چنا اور ایوان میں گئے اور آئین میں جو راستہ بتایاگیا ہے اس کے مطابق عدم اعتماد لے کر آئے ، پھر یہ ہوا عدم اعتماد تو ہوگیا مرکز میں حکومت بن گئی لیکن پراجیکٹ عمران کے سہولت کاروں کو چین نہیں آیا ۔اس کے سہولت کار آج بھی ارد گرد منڈلا رہے ہیں آج بھی اداروں کے اندر موجود ہیں، ہم بولتے ہیں تو بہت سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔ ہماری چار مار کی اس حکومت
کو کام نہیں کرنے دیاگیا ،پنجاب میں حمزہ شہباز کے پائوں نہیں لگنے دئیے گئے ۔ ماضی کی چار سال حکومت نے ملک کی معیشت کو تباہی پر ڈالا ، دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑا کرنے والا آج کہتا ہے کہ سازش ہوئی ہے یہ کیسے سازش ہوئی ،آئین کے اندر عدم اعتماد کا راستہ موجود ہے ۔ ہم نے کسی کی مدد نہیں لی ، اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی ، لیکن بعض لوگ نیوٹرل ہونے کے لئے تیار نہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے فیصلے آئے ہیں جو
فیصلے آئین سے متصادم ہیں، آئین بنانے کا حق پارلیمنٹ کو ہے، آئین لکھنے کا حق محترم عدالت کو نہیں ، آئین کی تشریح عدالت کرے گی لیکن تریسٹھ اے پر جو معزز عدالت کی رائے ہے وہ ہم سمجھتے ہیں آئین سے متصادم ہے ۔ سپریم کورٹ کی ریو یو پٹیشن پڑی ہے کوئی سن نہیں رہا ، یہ انوکھا لاڈلا ہے ، یہ بچہ جمہورا ، ابھی تک لاڈلا ہے گالیاں بھی نکالتا ہے اور کام بھی نکلواتا ہے ، ہمار ایہ قصور ہے ہم گالی نہیں نکالتے ، ہمارا یہ قصور ہے ہم بد
تمیزی نہیں کرتے کیا پھر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ جس کی زبان لمبی ہو گی اس کی بات مانی جائے گی گی ۔ بیس حلقوں میں صاف اور شفاف انتخابات ہوئے ، اس الیکشن کے بعد بھی اس نے الیکشن کمیشن کو گالیاں دیں ، یہ باقیوں کیلئے بھی پیغام ہے ، اس کو مرضی کا چیف جسٹس، آرمی چیف، مرضی کا صدر اور وزیر اعظم ،مرضی کا میڈیا اور صحافی اور مرضی کی اپوزیشن چاہیے لیکن یہ نہیں ہو سکتا اور یہ نہیں ہوگا۔ یہ کہتا ہے لاہور میں دو
دن رہوں گا سات دن رہو لاہور میں ، لاہور تمہارا مقابلہ کرے گا اورتمہیں بھگائے گا، مسترد کرے گا ،تم نے پنجابیوں کو سمجھا کیاہے ، تم پنجابیوں کو سمجھتے کیا ہو ، چار سال ایک ناجائز کو مسلط کیا گیا ،ہم نے اربوں کے پراجیکٹ بنائے ، نیب بھی تمہاری تھی ثاقب نثار کی عدالت بھی تھی پانامہ والے بھی بھی تمہارے تھے باقی بھی تمہارے تھے کیا ملا کیا نکلا ،نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا ۔ہم نے اربوں کھربوں کی ڈویلپمنٹ
کرائی کیوںریفرنس نہیں بنایا ۔ تمہارے دور میں جب با ضمیر ججوں کے پاس ہمارے مقدمات لگے تو انہوںنے نیب کا عمران خان اور ان کے سہولت کامنہ کالا کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دیوار کے ساتھ بار بار لگایا گیا ،ہمیںدیوار کے ساتھ کتنا لگانا ہے ، ملک کو چلنے دیا جائے ،ڈالر اوپر جارہا ہے ، سٹاک مارکیٹ نیچے جارہی ہے ، عمران خان کہتا ہے پاکستان سری لنکا بنے گا ، اس کے منہ میں خاک ، اگر کچھ لوگ غیر جانبدار نہیں ہوں گے ، سہولت کار
پیچھے نہیں ہٹیں گے پھر ہمیں بتا دیں ملک کون چلائے گا ، اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانی ہے یا ملک کو چلانا ہے ، اگر ملک کو چلانا ہے تو پارلیمنٹ سپریم ہے ، پھر پارلیمنٹ مدر آف دی انسٹی ٹیوشن ہے ، ہمیں ڈکٹیٹ نہ کریں ، ڈریگ نہ کریں، بڑے ادب سے پوچھتا ہوں جب قاسم سوری آئین کی دھجیاں اڑا رہے تھے سپیکر صاحب آئین کو پامال کر رہے تھے علوی صاحب آئین کے پرخچے اڑا رہے تھے ، تم ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجتے
تھے اس وقت ڈپٹی سپیکر کو کیوں عدالت کے اندر نہیں بلایا گیا کیونکہ یہ روایت نہیں ہے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نہیں بلایا جاتے،آج ہمارا مقدمہ ہے تو ڈپٹی سپیکر کو بلایا گیا ہے ۔ ادب کے ساتھ سوال کرنا سیاسی کارکنوں کا حق ہے بات کرنا ہمارا حق ہے ، ہم ادب کے ساتھ ضرور کہیں گے ایسا نہ کیا جائے ، ہم مطالبہ کرتے ہیں ، حکمران اتحاد نے مطالبہ کیا ہے کہ کہ تریسٹھ اے پر معززسپریم کورٹ کی رائے پر جو ریو نیو پٹیشن ڈالی ہے اسے سپریم
کورٹ کے سارے ججز صاحبان مل کر سنیں ، پنجاب کا مقدمہ بھی وہیں سنا جائے کیونکہ خرابی کی بنیاد ہے تریسٹھ اے کی غیر آئینی تشریح ہے ، اس کو ڈیبیٹ کیا جائے ، فیصلے ہوتے رہیں گے ، ان کی وقعت تب ہو گی جنہیںپذیرائی نہ ملے ۔ ہم کسی الیکشن سے بھاگتے نہیں، عمران خان نے ہم نے کام ہی یہ کیا ہے ، لڑے بھی ہیں جیتے بھی ہیں ہارے ہیں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو ، سن لو جس راستے پر تم چل رہے ہو تم سمجھتے ہو ہم
جائیں گے اورالیکشن آ جائے گا، تم سمجھتے ہو نگران آ گئے تو الیکشن آ جائے گا اور تم اپنے جھوٹے بیانیے کے ساتھ پھر جیت جائو گا توایسا نہیں ہوگا ، تم جتنے بھی تیز ہو اور چالاک ہو ، ہمیں دھکیل کر نکالا گیا تو الیکشن نہیں آئے گا ، اگر الیکشن چاہتے ہیں، معیشت کا استحکام چاہتے ہیں تو یہ دھینگا مشتی سے نہیں ہوگی ،پھر کسی یکطرفہ فیصلے کے نتیجے میں استحکام نہیں آئے گا ، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان آگے بڑھے ، ہم چاہتے ہیں کہ یہ
لڑائی جنگ میں نہ بدلے مگر اس کے لئے یہ غیر ملکی سازش کا جھوٹ ، غداری کے جھوٹے طعنے ، بد زبانی، گالیاں، یہ دھمکیاںکبھی سیاستدانوں کھبی عدالتوں کبھی سچ بولنے والے صحافیوں کو دینا بند کرنا پڑیں گے ورنہ گلیوں میںرلتے رہو گے منزل پر نہیں پہنچو گے اگر منزل پر پہنچنے لگو گے تو جو ہمارے ساتھ کرتے ہو ہم تمہار ا کھیل خراب کریں گے تمہیں پہنچنے نہیںدیں گے ، ہم یہ نہیں چاہتے ، پچاس ہزار ایک لاکھ لوگ اکٹھے کرنا کسی
قومی جماعت کے لئے کوئی کام نہیں ہے لیکن ہم ملک میں کشمکش اور لڑائی نہیں چاہتے ،ہوش کے ناخن لو،ہمیں دیوار سے لگانے کی سازش بند کی جائے ،پاکستان میں الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے اور اگر وقت سے پہلے ہوں گے تو اس کا فیصلہ کوئی اور نہیں کرے گا پاکستان کے سیاستدان کریں گے۔عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ملک میں انصاف کا دوہرا معیار لیکن ہم نے برداشت کیا ،نواز شریف کا حوصلہ چٹان جیسا ہے وہ برداشت کر گیالیکن اب ہم
برداشت اور معاف نہیں کریں گے ،ملک کو لوٹنے کا حساب ابھی ہم نے چکتا کرنا ہے ،اس عمران خان کو مرضی کے فیصلوں کی عادت پڑ گئی ہے ،یہ گالیاں دیتا ہے اور مرضی کا فیصلہ لیتا ہے ،عمران خان نے اپنی کشتی ڈوبتی دیکھ کر فرح گوگی کو باہر بھگا دیا ہے ،عمران خان کی عادتیں ایسی ہیں کہ وہ جیل نہیں کاٹ سکتا ،ہمیں اللہ نے موقع دیا تو عمران خان کو جیل بھجوا کر دم لیں گے ،ہمارے راستے میں روڑے اٹکائے گئے ،ہمارے 25 لوگوں کو
ڈی سیٹ کریں تو وہ صحیح ہے اور چوہدری شجاعت خط لکھیں تو ان کو کچھ نہیں کہا جانا،لاڈلے کے لئے قانون اور اور مسلم لیگ (ن)کا قانون الگ ہے ،اس پر فل کورٹ بنائوورنہ ہم یہ فیصلہ نہیں مانیں گے ،چوہدری شجاعت کے فیصلے کے مقابلے میں آپ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس کب اور کہاں ہوا ،ساجد بھٹی کو پارلیمانی پارٹی کا لیڈر کب بنایا گیا،وقت آیا تو توشہ خانہ، فرح گوگی کا حساب لینے بنی گالہ جائیں گے ،حمزہ شہباز وزیراعلی تھے،
ہیں اور رہیں گے۔ رانا مشہود نے کہا کہ لاہور پہلے بھی مسلم لیگ (ن)کا گڑھ تھا، ہے اور رہے گا،پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والے نواز شریف اور لیگی کارکنوں کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے ،نواز شریف ہمیشہ ملکی استحکام، سلامتی اور عوام کے لئے کھڑے ہوئے ،جب کبھی ملکی حالات خراب ہوئے تو نواز شریف نے قوم کو متحد کیا اور حالات بہتر کئے ،ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگتا ہے تو ایک کھیل کھیلا جاتا ہے اور عمران
خان جیسے پٹھو سامنے لائے جاتے ہیں ،نواز شریف نے ملکی سلامتی کو یقینی بنایا اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بات کی ۔مسلم لیگ (ن) کی کال پر اراکین اسمبلی ،رہنمائوں اور کارکنان نے لبرٹی چوک میں جمع ہو کر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا ،مختلف علاقوں سے پارٹی کے اراکین اسمبلی اور رہنما ئوں کی قیادت میں کارکنان ریلیوں کی صورت میں لبرٹی چوک میں جمع ہوئے جو اپنی قیادت کے حق میں نعرے لگاتے رہے ، لیگی کارکنان کے اجتماع کی وجہ سے لبرٹی چوک میں ٹریفک کا نظام معطل ہو گیا جبکہ ملحقہ شاہراہوں پر بھی ٹریفک کا شدید دبائو رہا جبکہ اس موقع پر کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔