کراچی (این این آئی)سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومتی ناکامیوں کیلئے دوسروں کو مورودالزام ٹھہرانے کی پاکستانی سیاست دانوں کی پرانی روش پر چل رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف امریکی سکالر اور ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر برائے اسکالرز، واشنگٹن میں گلوبل فیلو رابرٹ ہیتھ وے نے اپنے ایک خصوصی مضمون میں کیا جو امریکی ایوارڈ یافتہ میگزین سائوتھ ایشیا کے
جولائی 2022کے شمارے میںشائع ہوا ہے۔ ” پاکستان اورامریکہ کے سرد و گرم تعلقات کے زیرِعنوان مضمون سائوتھ ایشیا میگزین کے سرِورق کے طورپر شائع ہوا جس میں سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد، سینیٹر ( ریٹائرڈ ) جاوید جبار اور پاکستان کے سابق نگراں وزیر خزانہ شاہد جاوید برکی کے مضامین بھی شامل ہیں۔ ” پہلے آئینے کا سامنا کیجیے”کے عنوان سے مضمون میں رابرٹ ہیتھ وے نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات اور مختلف ادوار میں آنے والے اتار چڑھائو کے پیچھے سرکردہ عوامل کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا۔ ہیتھ وے کے مطابق پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان باقاعدگی سے اپنی کوتاہیوں سے پردہ پوشی کرتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا الزام درپردہ سازشوں اور خفیہ ہاتھوں سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ہیتھ وے نے مضمون میں یہ نکتہ اٹھایا کہ ” اگر عمران خان کے پاس اپنے الزامات کی حمایت میں معمولی سا ثبوت بھی ہوتا تو وہ اس کی نمودونمائش ضرور کرتے۔
” ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے غلط اندازوںاور نااہلی کی نسبت پاکستان کے دوغلے پن کی بات کرنا آسان ہے لیکن اس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ آج کابل پرطالبان کیوں براجمان ہیں۔ بقول ہیتھ وے ” عمران خان نے بلاشبہ افغانستان میں امریکی جنگ سے اپنی مخالفت چھپانے کی کوشش نہیں کی اور پاکستان کے صدور ، وزرائے اعظم اور آرمی کے سربراہان کی جانب سے امریکہ کو دی جانے والی متواتر حمایت کو حقارت کی نظر سے دیکھا۔
بلاشک و شبہ اس امر کا تعلق اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین حالیہ برسوں میں تعلقات میں سرد مہری سے تھا۔” ہیتھ وے اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں ” اول ہمیں اپنی مایوسیوں اور ناکامیوں کیلئے کسی دوسرے ملک کو مورد الزام ٹھہرانے کی روایت کے مضر اثرات کا احساس کرناچاہیئے ۔
بین الاقوامی سفارت کاری میں شخصی بناو سنگھار کی طرح ایک صاف شفاف اور اچھا آئینہ درکار ہوتاہے۔” شمشاد احمد ، سابق پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے اپنے مضمون ” اطاعت سے آگے ”میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی نازک صورتحال پرطبع آز مائی کی جس میں ابھی بھی اصلاح کی گنجائش موجودہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ ایک طویل اور خوشگوار تعلق کا جواز فراہم ہواہو۔لیکن یہ تعلقات کی وسعت تک محدود نہیں ہے اور نہ اس سے درپیش چیلنجوں کا خاتمہ ممکن ہواہے۔ سابق نگراں وزیر خزانہ اور ورلڈ بینک کے سابق نائب صدر شاہد جاوید برکی نے ان عوامل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جو امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات کی قسمت کا تعین کرتے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ مراسم ہمیشہ واشنگٹن کی مرضی کے تابع رہے اورواشنگٹن جغرافیائی اہمیت کے خطے میں جس کا پاکستان ایک حصہ ہے، اپنی جنگی مفادات کی تشریح کرتا ہے۔ شاہد جاوید برکی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے وضع کردہ طریقہ کار پر چلنا ہوگا جس کیلئے اسے چین پر زیادہ انحصار کرنا ہوگا بہ نسبت اس نے اپنی آزادی کے بعد اول سات دہائیوں میں امریکہ پر تکیہ کیا”۔
سینیٹر ( ریٹائرڈ) جاوید جبار نے اپنے مضمون” ثقافتی ربط” میں امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ثقافتی روابط کا تعین جغرافیائی سیاسی ، متعلقہ ملکوں کے ذاتی مفادات ، ٹیکنالوجی، تجارت، سیاحت ، وسیع تر بے غرض اصول وضوابط اور حکومت ِوقت کی طرف سے مختلف اوقات میں مخصوص دلچسپی جس کا انحصار روایتی ثقافتی تبادلہ کے فروغ کے ضمن میں کیا جاتا رہا ۔
سینیٹر جاویدجبار کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ ثقافتی تبادلے میں باہمی دلچسپی سے امریکہ کی پاکستان کے ساتھ جغرافیائی و سیاسی تناظر میں حد سے زیادہ مفاد پر ستانہ اور عمیق طریقہ کار پر مبنی تعلقات سے امریکہ کی توجہ ہٹائی جاسکتی ہے۔