کابل (این این آئی)افغانستان میں تحریک طالبان کی حکومت کی جانب سے بنکوں سے رقم نکالنے پر کٹوتی کے فیصلے کے بعد لوگوں نے رقوم بنکوں کے بجائے گھروں میں جمع کرنا شروع کردی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق دارالحکومت کابل کے ایک رہائشی نور اللہ نے بتایا کہ لوگوں کا بینکوں پر سے اعتماد ختم ہو گیا ہے اور اب وہ اپنی رقم ان میں محفوظ نہیں
کرنا چاہتے جیسا کہ وہ پہلے کرتے تھے،کیونکہ انہیں بنکوں سے رقم نکالنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور ایک مخصوص رقم سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت بھی نہیں۔دوسری جانب متعدد ماہرین اقتصادیات نے انکشاف کیا کہ اگر بینکنگ کا نظام اسی شرح پر چلتا رہا تو بینک خدمات فراہم نہیں کر سکیں گے اور اس سے ملکی معیشت پر خاصے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔معاشی تجزیہ کار وہاب قاطی نے بتایا کہ بینک ایک اقتصادی ڈھانچہ ہے، جب ہم اپنا پیسہ بینکوں میں جمع کرتے ہیں تو اسے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔سنٹرل بینک آف افغانستان کے حکام نے حال ہی میں ایک بیان میں واضح کیا کہ نجی اور سرکاری بینکوں کو صارفین کی رقوم نکالنے کی حد کو بڑھا کر 400 ڈالر فی ہفتہ کرنا چاہیے، لیکن کچھ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ یہ رقم اب بھی کافی نہیں ہے۔کابل کے ایک رہائشی راہنورد نے کہا کہ جتنا زیادہ لوگوں کا پیسہ بینکوں سے نکالا جائے گا، لوگوں میں بینکوں کے حوالے سے اعتماد اتنا ہی کم
ہو گا اور تاجر اپنا سرمایہ ملک سے باہر لے جائیں گے۔طالبان کی حکومت نے افغانستان میں غیر ملکی کرنسیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ اچانک کیے گئے اس اقدام سے معیشت متاثر ہو سکتی ہے، جو پہلے ہی زر مبادلہ کی کمی کے بحران کا شکار ہے اور ملک کو مزید تنہا کر سکتا ہے۔