لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے عمران خان تسلیم کر لیں کہ انہیں جو مینڈیٹ ملا یا دلوایا گیا اس سے کام نہیں بنا اور نظام فیل ہو گیا ہے،حکومتی صفوں میں شامل سمجھدار لوگ وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن سے بات کرنے کے لئے کہیں اور انہیںنئے انتخابات کے لیے آمادہ کریں،بہتر ہے عمران خان عدم استحکام کے بجائے خود ہی فیصلہ کرلیں،
حکومتی اتحادیوں سے بھی گزارش کرتے ہیں ہماری بات پرغورکریں،ڈسکہ الیکشن پر رپورٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ حکمران ووٹ چور ہیں،حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین مسلط کرنا چاہتی ہے، گزشتہ انتخابات میں حکومت کے پاس آر ٹی ایس اور اب ای وی ایم کا بٹن ہاتھ میں ہوگا، نیب کے ترامیمی آرڈیننس سے ثابت ہو گیا ہے کہ ساری دال ہی کالی ہے ،موجودہ دور میں پارلیمنٹ عملاً معطل ہے اور ریاست کا نظام آرڈیننسز کے ذریعے چلا جارہا ہے ، ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بنا ہوا اگر ہمارے پاس مطلوبہ تعداد پوری ہوتی تو صدر کا مواخذہ ہونا چاہیے تھا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے پارتی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں پارٹی رہنمائوں سردار ایاز صادق ، مصدق ملک، اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ حکومت نے عوام کو ریلیف نہیںتکلیف پیکج دیا ہے، آج معیشت آئی سی یو میں پڑی ہوئی ہے ،موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں ہے کہ مزید حکمرانی کرسکے اس لیے نئے مینڈیٹ کا حصول ناگزیر ہوچکا ہے۔این اے 133میں جان بوجھ کر عوامی احتساب سے بچنے کے لئے فرار اختیا رکیا گیا ، ایک شخص کو ٹکٹ جاری کر کے قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نام نہاد انتخابی اصلاحات کر رہی ہے ،ای وی ایم جو دنیا کے صرف دو ،ڈھائی ملکوں میں استعمال ہوئی وہاں کی آباد ی ایک کروڑ سے بھی زیادہ نہیں ہے جبکہ بڑے جمہوری ممالک میں ای وی ایم کا استعمال نہیں ہوتا ،گزشتہ انتخابات میں حکومت کے پاس آر ٹی ایس اور اب ای وی ایم کا بٹن ہاتھ میں ہوگا۔ڈسکہ کی رپورٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ حکمران ووٹ چور ہیں ، ان کا اب ڈے اینڈ نائٹ ڈکیتی کا منصوبہ ہے لیکن سیاسی جماعتیں اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔آئین میں درج ہے کہ صدر مملکت آرڈیننس اس وقت جاری کرسکتے ہیں جب قانون سازی کے لیے حالات سازگار نہ ہوں تب نظام حکومت کا تسلسل برقرار رہے اس لیے آرڈیننس جاری کیا جاتا ہے لیکن ملک میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے،صدر مملکت انگوٹھا چھاپ بن گئے ہیں، ان کا تو مواخذہ ہونا چاہیے اور اگر ہمار ے پاس مطلوبہ تعداد ہوتی تو ایسا ہونا چاہیے تھا ۔
انہوںنے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس سے ثابت ہوگیا کہ یہ تو ساری دال ہی کالی نکلی ہے،نیب ترمیمی آرڈیننس میں حکومت کا فلسفہ ہے کہ خود کسی کے ہاتھ نہ آئو اور سیاسی مخالفین کو ہاتھ سے جانے نہیں دو۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ دنوں بھی ایک نوٹیفکیشن پر جھگڑا کیا ،پاکستان کا کوئی بھی ریاستی ادارہ حکومت کے شر سے محفوظ نہیں ۔ مسلم لیگ (ن)نے حکومت کے خلاف ایک روڈ میپ بنا لیا ہے
جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بھی اپنا فیصلہ کرچکی ہے، مسلم لیگ (ن) پہلے ہی مہنگائی کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے اور اس میں تیزی لائی جائے گی ، ہم گلی محلوں میں مہنگائی کا ماتم کرین گے ، قیمتوں کو کم کرنا اور اس میں توازن برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن وہ اپنا کام نہیں کر رہی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر تھوڑی عقل او ردانش باقی ہے تو عمران خان کو تسلیم کر لینا چاہیے
کہ جو مینڈیٹ انہیں ملا یا دلوایا گیا تھا اس سے کام نہیں بنا سکا اور نظام فیل ہوگیا ہے، اس سے پہلے کہ تلخی بڑھے حکومتی صفوں میں شامل سمجھدار لوگوں عمران خان سے کہیں کہ وہ اپوزیشن سے باتی کریں اور ملک کو نئے انتخابات کی طرف لے جایا جائے ،اب نظام ریاست چلانا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں ہے اس لیے نئے مینڈیٹ کا حصول ناگزیر ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی
توچاہتے ہیں اگلا سورج طلوع ہونے سے پہلے یہ حکومت چلی جائے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن متحد ہوگئی ہے، انتخابی اصلاحات، نیب ترمیمی آرڈیننس پر تمام اپوزیشن جماعتوں کا ایک موقف ہے،گلیوں،کوچوں میں جا کر زورلگانے کے بجائے عمران خان کو خود جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عدم اعتمادکا ایک آئینی و قانونی راستہ موجود ہے، ہمارے پاس اتنے ووٹ نہیں، حکومتی جماعت کے
کریکس بڑے واضح ہوچکے ہیں،ہمیں انتظارکرنا چاہیے، تمام تجربات کودیکھ چکے ہیں، عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے ہم نے کوئی کھیل نہیں کھیلا، عمران خان خود ہی گڑھا کھود رہے ہیں،حکومت کی عدم مقبولیت انتہا کی طرف جا چکی ہے، ہم جتھوں کے ذریعے حکومتیں گرانے کے خلاف ہیں، عمران خان خود ہی اپوزیشن سے رابطہ کرکے روڈ میپ بنائیں اورمستعفی جائیں، ایسا بھی تو ہو سکتا ہے ای وی ایم کوئی اوراستعمال کرجائے؟ بہتر ہے عدم استحکام کے بجائے خود ہی فیصلہ کرلیں، حکومتی
اتحادیوں سے بھی گزارش کرتے ہیں ہماری بات پرغورکریں۔سردار ایاز صادق نے کہا کہ 2018اور موجودہ دور میں مختلف اشیا ئے خوردونوش کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کہا کرتے تھے کہ مہنگائی ہوتی ہو تو حکمران چور ہوتے ہیں، اب عمران خان کے دور اقتدار میں مہنگائی اپنے عروج پر اس لیے حکومت چور، ڈاکو کی سطح سے بھی اوپر نکل گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ دو حکومتوں نے اتنے قرضے نہیں لیے جتنے موجودہ حکومت نے 3 برس میں لے لیے لیکن اس پر بھی انہیںاحساس نہیں ہے۔ریلیف پیکج دینے کے بعد رات کو پیٹرول اور صبح بجلی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک ماہ میں تین مرتبہ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہو۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے نیب ترمیمی
آرڈیننس دراصل اپنے، اپنے خاندان اور وزرا ء کے لیے بنایا جنہیں کسی بھی صورت میں نیب احتساب کے دائرے میں نہیں لا سکتا۔نیب ترمیمی آرڈیننس کے تحت وزیراعظم، وزیر اعلیٰ ،وزرا ء کو ہر قسم کا استثنیٰ حاصل ہوگا، ترمیمی آرڈیننس کا مقصد یہ ہے کہ خود پیشگی میں احتساب سے خلاصی حاصل کرلی جائے اور دوسرا نہ بخشا جائے۔انتخابی اصلاحات کے لئے غلط طریقہ اپنایا جارہا ہے ، ہم بھی چاہتے ہیںاوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کو اختیار ملنا چاہیے لیکن اس پر بات ہونی چاہیے ،اب بار بار سلیکشن نہیں
ہوسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ٹی ایل پی اور حکومت کے معاہدے میں وزیر داخلہ غائب ہیں وہ کہاں پر ہیں۔حکومت اگر مشترکہ سیشن کے ذریعے بلڈوز کرنا چاہتی ہے تو یہ سب کچھ واپس بھی ہو سکتاہے ۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دو قوانین کو چور دروازے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،2017ء میں تمام پارٹیوں کو ملا کر ایک کمیٹی بنائی گئی ،ایک قانون کو مشترکہ طور پر پاس کیا گیا،اس مرتبہ پالیمان کو شامل کئے بغیر ایک بل کو خود ہی پاس کرلیا گیا،
اپوزیشن کے کسی ممبر کو ایک لفظ بولنے نہیں دیا گیا۔مصدق ملک نے کہا کہ جوریاست عوام کے تابع نہ ہو وہاں مہنگائی کیوں نہ ہو؟ اگریہ عوام کے تابع نہیں تو کس کے تابع ہیں؟ ،یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کس کے تابع ہیں؟ فرانس، جرمنی، برطانیہ، ہالینڈ، فلپائن، امریکہ نے ای وی ایم کواستعمال کرنا بند
کردیا ہے ، یہاںای وی ایم اس لیے لائی جارہی ہیں کہ حکومت عوام کے تابع نہ ہو، ہرسال مہنگائی 12 سے 14 فیصد تک ہورہی ہے، یہ ایسٹ انڈیا کمپنی آئی ایم ایف کی تابع ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا فائدہ ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں،پاکستان میں ووٹ یہ نیب کے ذریعے لیں گے ،کسی کو ویڈیو دکھاتے ہیں کسی کو کیسز سے ڈراتے ہیں ۔