اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی میں ملازمین کی برطرفی کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن ملازمین کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی ،ایک دوسرے برس پڑے ، ،پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شازیہ مری کو بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر احتجاج کیا۔منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر امجد علی خان کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں ملازمین کی برطرفی کے معاملے پر
بحث ہوئی۔پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے چھ آرڈیننس کی عدم منظوری کے لیے قرار داد پیش کی ہے اور مجھے انہیں پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔انہوںنے کہاکہ تقریباً 16ہزار لوگوں کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے تو ان کے لیے اپوزیشن نے مل کر ایک مشترکہ قرارداد تیار کی ہے۔انہوںنے کہاکہ حکومت سمیت تمام اپوزیشن نے اس قرارداد کو سپورٹ کیا ہے، میں شکرگزار ہوں کہ حکومت نے اس کو سپورٹ کیا اور ایوان سے ان 16ہزار ملازمین کو پیغام جائے گا کہ ہم نے اکٹھا ان کی نوکری کے تحفظ کی بات کی ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ملازمین کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم نے اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لی، ہم نے اپوزیشن کے ساتھ اس معاملے پر دو ملاقاتیں کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اس معاملے پر کمیٹی بنائی ہے اور انہوں نے پرویز اور میرے ذمے یہ کام لگایا، ہم نے اٹارنی جنرل کو بھی بلایا جنہوں نے اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کیا اور وزیر اعظم نے ہمیں کہا کہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کریں۔دوران اجلاس سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ عدالت کی جانب سے ملازمین کے حوالے سے فیصلہ آ چکا ہے اور فیصلے پر بات کی جا سکتی ہے، یہ اپوزیشن کی طرف سے ایک مشترکہ قرارداد آ رہی ہے اور اس طرح کے عوامی مسائل پر پارلیمنٹ میں بحث کرنا قانون اور آئین کے عین مطابق ہے۔انہوں نے قائم اسپیکر سے درخواست کی کہ آپ اس حوالے سے قرارداد سن لیں اور اگر اس حوالے سے کوئی قابل اعتراض چیز ہے تو روک دیجیے گا لیکن کم از کم ہمیں ان 16ہزار خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے دیں۔اس موقع پر مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ آصف نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ان میں سے اکثر اپنی نوکری کے اختتام پر پہنچ چکے تھے، اگر ان کے آجر ملازمین سے گولڈن ہینڈ شیک اور ریٹائرمنٹ کے فواد جیسا انتظام کر لیں تو ان سے سیٹلمنٹ ہو سکتی ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ تمام لوگ 90 کی دہائی سے خدمات انجام دے رہے تھے اور ان کو ایک ہی جھٹکے میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا، یہ ایک انسانی ہمدردی کا مسئلہ ہے، ہم عوام کے نمائندے ہیں اور اگر ہم اس معاملے کو اس لیے نہیں اٹھائیں گے کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو یہ نامناسب ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس دور میں ملازمین کو
برطرف کردینا بہت ناانصافی ہے اور اسی ایوان میں ایگری کلچر ریسورس کونسل کے 269 ملازمین کو ہم نے بحال کیا ہے تو ایوان سے پیغام جانا چاہیے کہ ہم عوامی مسائل پر حساس ہیں اور ہم عوام کو بچانے کے لیے آ رہے ہیں۔دوران اجلاس وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ میں حیران ہوں، لگتا ہے کہ ان کو کوئی احساس نہیں کیونکہ ان کی حکومت نے ان لوگوں کو نکالا تھا اور آج انہیں ہمدردی ہو گئی ہے، اب تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ملازمین کو دوبارہ بحال کیا
تو سپریم کورٹ نے ایکشن لیا، پہلی دفعہ انہوں نے نکالا، آج سے ہمدردی جتا رہے ہیں، انہیں اس وقت ہمدردی نہیں آئی جب انہوں نے ان لوگوں کو نکالا تھا، خواجہ آصف کچھ تو شرم و حیا کریں۔اس کے بعد اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اظہار خیال کرنے کا کہا تو شیریں مزاری اور مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں خصوصاً خواجہ آصف کے درمیان نوک جھونک ہوئی۔اس موقع پر اپوزیشن لیڈر شہباز نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے سے ہزاروں لوگوں کو ملازمت سے فارغ کر کے گھر
بٹھا دیا گیا تو کیا وہ ہم نے کیا؟ اسٹیل مل سے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے تو کیا وہ ہم نے کیا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ اس قت پورے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا ہے، ان تین سالوں میں 50لاکھ لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، کہاں گئیں وہ ایک کروڑ نوکریاں، وہ تو بہت دور کی بات ہے اور آج غریب کے گھر میں چولہا ٹھنڈا ہو چکا ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ ہمیں کس منہ سے طعنہ دے رہے ہیں، پاکستان کی معیشت کا بٹہ بیٹھ چکا ہے، بجٹ میں وزیر
خزانہ نے کہا تھا کہ ہم کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے لیکن اس وقت بجلی، پیٹرول، تیل کی قیمت کہاں جا پہنچنی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ مہنگائی کا طوفان کبھی نہیں آیا لہٰذا یہ بات کریں تو اپنے گریبان میں جھانک لیں۔اس مرحلے پر علی محمد خان نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، 2017 میں جب ان ملازمین کو برطرف کیا گیا تو مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت تھی لیکن شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو مجھے یقین ہے کہ انہیں ان ملازمین کی برطرفی کا افسوس ہو گا۔انہوںنے کہاکہ
اب ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ان 16ہزار ملازمین کے حق میں فیصلہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی نہ بنایا جائے، اپوزیشن نے اپنے جذبات کا اظہار کردیا ہے اور جو آپ کے جذبات ہیں وہی حکومت کے بھی ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے
ایک قانونی طریقہ کار ہے۔قائم مقام اسپیکر نے اسامہ قادری کو بات کرنے کی اجازت دی لیکن پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شازیہ مری کو بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر احتجاج کیا۔اس مرحلے پر پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے کورم کی نشاندہی کردی جس کے بعد ایوان کا اجلاس (آج)بدھ کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔