لاہور (آن لائن)لاہور ہائیکورٹ نے مجسٹریٹس کو پہلی بیوی کی بلااجازت دوسری شادی کرنے والے شوہروں کے ٹرائل سے روک دیا۔دوسری شادی کرنیوالے ملزم شوہروں کے ٹرائل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے بڑا فیصلہ جاری کردیا۔جسٹس امجد رفیق نے قانونی نکتہ طے کردیا کہ پنجاب بھر کے مجسٹریٹس پہلی بیوی کی
اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے والے ملزم شوہر کے ٹرائل نہیں کر سکتے۔ ہائیکورٹ نے پنجاب بھر کے مجسٹریٹس کو دوسری شادی کے کیسز کے ٹرائل کرنے سے روک دیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ فیملی کورٹ کے 1964 کے ایکٹ کے سیکشن 20کے تحت صرف فیملی عدالتوں کو مسلم فیملی لا آرڈیننس کے کیسز سننے کا اختیار ہے، مجسٹریٹس کی جانب سے ایسے کیسز کا ٹرائل کرنا آئین کے آرٹیکل 175 کے سب سیکشن (2) کی خلاف ورزی ہے۔ہائیکورٹ نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے والے شوہر کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنادیا۔ جسٹس امجد رفیق نے پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ملزم مظفر نے پہلی شادی عشرت بی بی کے ساتھ 2ستمبر2013 کو کی تھی، مظفر نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر 4اپریل2015کو ستارہ جبیں سے دوسری شادی کرلی، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے پر مجسٹریٹ نے مظفر کو 3ماہ قیداور 5لاکھ روپے جرمانہ کی سزا
سنادی، مجسٹریٹ نے ٹرائل کرکے اختیارات سے تجاوز کیا۔لاہور ہائیکورٹ نے بغیر اجازت دوسری شادی کرنے والے شوہر کا مجسٹریٹ کی جانب سے ٹرائل کرنا کالعدم قرار دیدیا۔ عدالت نے ملزم مظفر کی تین ماہ قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ کی سزا بھی کالعدم قرار دیدی ۔فیصلے کے مطابق پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی
نے استغاثہ دائر کیا، مجسٹریٹ نے مسلم فیملی لا کے سیکشن 6کے تحت شوہر کو سزاسنائی، ایڈیشنل سیشن جج نے بھی اپیل کنندہ کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دیا۔اپیل کنندہ کے وکیل نے موقف اختیار کیا مسلم فیملی لا آرڈیننس کے تحت صرف فیملی کورٹ کو کیس سننے کا اختیار تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ کو سماعت کا اختیار نہیں تھا لہذا سزا بھی کالعدم قرار دی جائے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مسلم فیملی لا آرڈیننس کے سیکشن 5 میں لفظ (ایکسکلوزیو)کا مطلب فیملی کورٹ کے علاوہ کوئی دوسری عدالت اسکے اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، یہ بات واضح ہے کہ صرف فیملی کورٹ کو ہی اس نوعیت کے جرائم پر سماعت کرنے کا اختیار ہے ۔ سیکشن 20کے تحت فیملی کورٹ کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیاراتِ دیے گئے ہیں، لہذا مجسریٹ کاسزا دینے اور ایڈیشنل سیشن جج کا سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔