اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹر علی ظفر اپنی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جہانگیر ترین کےساتھ سرکاری ایجنسیاں نا انصافی کر رہی ہیں۔یہ ایک ایسا نتیجہ ہے جس سے وزیراعظم کیمپ اتفاق نہیں کرتا۔ باضابطہ طور پر رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی لیکن اس رپورٹ کے اہم پوائنٹس کا تبادلہ کیا گیا ہے۔روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر
کے مطابق علی ظفر نے اپنی تحقیق کے نتائج اس اجلاس میں پیش کیے جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر بھی اجلاس میں شریک تھے۔علی ظفر کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کیخلاف الزامات ٹھوس نہیں اور انہیں اور ان کے بیٹے کو پرچے کاٹ کر مزید نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ علی ظفر کے نتائج سے اتفاق نہیں کیا گیا۔ذرائع کے مطابق، شہزاد اکبر سے کہا گیا کہ ایف آئی اے کی کارروائی کے دفاع میں حقائق پیش کریں۔اس صورتحال میں خالد جاوید خان نے دونوں کے درمیان امپائر کے فرائض انجام دیے۔علی ظفر کو بتایا گیا کہ پرچے شوگر انکوائری کمیشن کی سفارشات کے مطابق کاٹے گئے ہیں۔انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ پرچے صرف ترین کیخلاف نہیں بلکہ اُن تمام افراد کیخلاف کاٹے گئے ہیں جو اس وقت کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔دونوں فریقوں کا موقف سننے کے بعد اٹارنی جنرل نے شہزاد اکبر کے حق میں ووٹ دیا اور کہا کہ جہانگیر ترین
کیخلاف ہونے والی کارروائی شفاف ہے۔ علی ظفر اور شہزاد اکبر دونوں کو سوالات بھیجے گئے لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔اٹارنی جنرل بھی اس معاملے پر خاموش ہیں۔ تاہم، انہوں نے ایک اور صحافی کو بتایا کہ وہ اس معاملے میں ریفری ہیں اور جو کچھ فیصلہ علی ظفر کریں گے اسے اُن کی منظوری درکار ہوگی۔اس پورے معاملے پر
وہ علی ظفر کے نتائج سے اتفاق نہیں کرتے اسلئے غالب امکان ہے کہ جاری کرنا تو دور؛ اس رپورٹ کو حتمی شکل ہی نہیں دی جا سکے گی۔ (مذکورہ بالا بحث و مباحثہ صرف اہم پوائنٹس کی بنیاد پر ہوا ہے، انہوں نے رپورٹ کا باضابطہ مسودہ جمع نہیں کرایا۔)دوسری جانب جہانگیر ترین سمجھتے ہیں کہ علی ظفر کی رپورٹ ہی ان کیلئے امید کی آخری کرن ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ رپورٹ میں ان کے کیسز کیخلاف بھلے ہی کوئی نتیجہ اخذ نہ کیا گیا ہو لیکن اسے جاری ضرور کیا جانا چاہئے، ایسا کرنے سے حکومت کی جہانگیر ترین کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔دوسری جانب، حکومتی عہدیدار سمجھتے ہیں کہ علی ظفر کی رپورٹ جاری کی تو حکومت کے کرپشن کے خاتمے کے راگ کو نقصان ہوگا۔
نہ صرف جہانگیر ترین بلکہ وہ تمام افراد جنہیں عمران خان کی نگرانی میں مختلف الزامات کا سامنا ہے وہ سب بری الذمہ ہو جائیں گے۔معلوم ہوا ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اخلاقی معیار کے لحاظ سے وہ جہانگیر ترین کے ساتھ شفاف نہیں تھے۔اجلاس میں وزیراعظم نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ ترین نے حکومت کے ابتدائی
دنوں میں اثر رسوخ استعمال کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اجلاس میں عمران خان نے کہا کہ ترین کی نا اہلی کے باوجود انہوں نے ترین کی سفارش پر کئی ہائی پروفائل تقرریاں کیں، خود انہیں ایگری کلچرل ٹاسک فورس کا چیئرمین بنایا گیا۔ لیکن اس کے بعد ایک وقت آیا جب آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہوا اور لوگوں نے ترین کے مبینہ ملوث ہونے پر قصور وار وزیراعظم
کو قرار دیا۔جہانگیر ترین کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایسا ان کی نگرانی میں نہیں ہوگا۔اس کے برعکس، انہوں نے نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے الزامات کے حوالے سے کہا کہ دوسرے ملزمان بھی اسی لیے گرفتار نہیں ہو رہے کیونکہ ترین کو گرفتار نہیں کیا گیا۔تاہم، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے نے تمام ملزمان کی گرفتاری کی تجویز دی تھی اور کہا تھا کہ معاملہ دو ہفتوں میں حل ہو جائے گا۔تاہم، اصل کھلاڑی اس اقدام کے مخالف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسی بھی اقدام سے کاروباری کمیونٹی میں منفی پیغام جائے گا جو پہلے ہی نیب کی احتساب کی مہم سے خوفزدہ ہے۔