ہالی ووڈ کی ایک فلم تھی ٹرمینیٹر‘ یہ اپنے دور کی کام یاب ترین فلم تھی اور اس کے پانچ سیکوئل بھی بنے تھے‘ یہ ایک ایسے مشینی انسان کی کہانی تھی جو مرتا نہیں تھا‘ اسے پوری دنیا مل کر مارتی تھی لیکن وہ دوبارہ اٹھ کر بیٹھ جاتا تھا اسے بھٹی میں جلا کر پگھلا بھی دیا جاتا تھا مگر وہ پگھلے ہوئے قطرے سے دوبارہ بن جاتا تھا‘
ہم اگر اپنی سیاست میں دائیں بائیں دیکھیں تو ہمیں ایم کیو ایم ٹرمینیٹر دکھائی دے گی‘ یہ ہر بار مارکھاکر ٹرمینیٹر کی طرح دوبارہ اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور ہمیں بہرحال اسے اس جذبے کی داد دینا پڑے گی، آپ کو یاد ہوگا آج سے چند دن قبل بلاول بھٹو نے ایم کیو ایم کو پیش کش کی تھی اور آج ن لیگ بھی چل کر ایم کیو ایم کے دروازے پر پہنچ گئی لہٰذا ہمیں ماننا ہو گا ایم کیو ایم نے صرف سات ایم این ایز کے ساتھ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کو اپنے دروازے پر کھڑا کیا ہوا ہے اور یہ حکومت گرائے یا نہ گرائے یا یہ کسی نئی حکومت کا حصہ بنے یا نہ بنے لیکن بہرحال یہ ایک سیاسی حقیقت ہے اور یہ حقیقت کسی نہ کسی طریقے سے ہر سیاسی موڑ پر اپنی گنجائش پیدا کر لیتی ہے اور ہم اس پر اسے داد دیتے ہیں، مولانا سیدھی سادی دھمکیوں پر آگئے ہیں‘ کیا واقعی کوئی ایسا معاہدہ ہوا تھا اور مارچ آتے ہی سیاسی ہل جل بھی شروع ہو گئی، بلاول بھٹو نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے جب کہ ن لیگ کراچی جا پہنچی، یہ ہلکی پھلکی موسیقی ہے یا پھر اپوزیشن واقعی کوئی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔