راولپنڈی(نیوزڈیسک)اڈیالہ جیل میں منی لانڈرنگ کے الزام میں قید ایان علی کے ساتھ تین قیدیوں کو محض اس خدشے کے ساتھ رکھا گیا ہے کہ کہیں سپرماڈل کو دوسرے قیدی یا وہ خود اپنے آپ کو ہی کوئی نقصان نہ پہنچالیں۔جیل ذرائع کے مطابق محکمہ جیل کو ماڈل کی زندگی کے حوالے سے خدشات لاحق تھے، لہذا تین خواتین قیدیوں کو ایان علی کی بیرک میں رکھا گیا ہے تاکہ انھیں کمپنی دینے کے ساتھ ساتھ ا±ن کی حفاظت بھی کی جاسکے۔جیل ذرائع کے مطابق سپر ماڈل اور ان کی ہم کمرہ قیدی خواتین کو اپنا کھانا خود بنانے کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ ایان علی کو جیل میں فراہم کیا جانے والا کھانا پسند نہیں ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق محکمہ جیل کے ایک سینئر افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ایان علی کا کیس ایک ہائی پروفائل کیس ہے، جنھیں میڈیا کی جانب سے منفی کوریج دی گئی ہے ایسے کیسز میں قیدی کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔مذکورہ افسر کے مطابق ایان علی بہت پریشان نظر آتی ہیں اور جیل حکام کو خدشہ ہے کہ کہیں وہ خودکشی کی کوشش نہ کرلیںہم اس کیس کے حل ہونے تک ان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی تنہائی کو کم کرنے اور ا±ن کے گرد سیکیورٹی بڑھانے کے لیے ایان علی کے ساتھ تین خواتین کو رکھا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ایان علی کو دیگر قیدیوں سے کوئی بھی چیز لے کر کھانے سے منع کیا گیا ہے اور انھیں جب بھی کھانے کےلئے کوئی چیز دی جاتی ہے تو اسے اچھی طرح سے چیک کیا جاتا ہے جب اس سلسلے میں ڈپٹی انسپکٹرجنرل اڈیالہ جیل جنرل شاہد سلیم بیگ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ایان کے ساتھ تین قیدیوں کو رکھے جانے کا اعتراف کیا تاہم جنرل شاہد نے مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ذرائع کے مطابق ایان علی کو عدالت لے جانے والی وین کی حفاظتی ٹیم کا حصہ بننے کےلئے بھی بہت سے پولیس افسران نے پیشکش کی ہے، ان افسران کی رضاکارانہ پیش کش کے پیچھے محض ایک مقصد ہے کہ وہ اڈیالہ جیل کی ‘سیلیبرٹی قیدی’ کی محض ایک جھلک دیکھ سکیں۔ذرائع کے مطابق پولیس اہلکار محرر کو فاسٹ فود چین پر کھانا کھلا کر یا 4 ہزار تک کی رقم ادا کرکے ماڈل ایان کو عدالت لے جانے والی حفاظتی ٹیم کا حصہ بننے کےلئے راضی کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔