نیویارک(نیوز ڈیسک ) سائنس دان کائنات کی کھوج میں نت نئی کاوشوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں اور ہر گزرنے والا دن نظام شمسی سے متعلق حیران کردینے والا انکشاف سامنے لے آتا ہے اور اب ایک عرصے سے تاریک مادے کی حقیقت جاننےکی کوشش مصروف سائنسدان اس کے بارے میں حیرت انگیز نتائج دنیا کے سامنے لے آئے ہیں۔بین الاقوامی تعاون سے جاری پروگرام ”ڈارک انرجی سروے“ یعنی تاریک توانائی کی جانچ کرنے والی ٹیم نے جنوبی امریکی ساحل پر طویل ترین کوہستانی سلسلے اینڈیز میں ایک انتہائی طاقتور دوربین کا استعمال کر کے اس تاریک مادے کا نقشہ تیار کیا ہے اس میں تاریک مادے کے بڑے بڑے حلقے نظر آرہے ہیں جو کہکشاو¿ں میں جڑے ہوئے ہیں اور انہیں ان کے درمیان موجود خلا علیحدہ کرتے ہیں۔ سروے میں دنیا بھر کے 300 سائنس دانوں نے حصہ لیا اوروکٹر بلینکو ٹیلی اسکوپ کے داہنے پر لگے 570 میگا پکسل کیمرے سے تاریک مادے کی تصاویر لی گئیں۔تاریک مادہ کائنات میں موجود اس مادے کو کہا جاتا ہے کہ جس کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم یہ کائنات میں نظر آنے والے مادے یعنی کہکشاو¿ں، ستاروں اور کہکشاو¿ں کے درمیان موجود خلائی گرد پر کششِ ثقل کے ذریعے اثر ڈالتا ہے اور اس نے ایک عرصے سے سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ ابھی تک سائنس دان دور دراز کی کہکشاو¿ں سے آنے والی روشنیوں میں خلل کو ناپ کر اس کے وجود کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔رپورٹ کی اہم رکن اور سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی پروفیسر چہوے چینگ کا کہنا ہے کہ حاصل کئے گئے نقشے کو جب زوم کیا گیا تو تو اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تاریک مادہ کس طرح کہکشاوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور کس طرح وہ کائنات کے گرد قائم ہے۔اس تحقیق کے ذریعے سائنس دان تاریک توانائی کا تعین کرنا چاہتے ہیں جو کہ ایک ایسی قوت ہے جو ہمہ وقت تیز تر ہوتی ہوئی رفتار سے کائنات کو پھیلا رہی ہے۔ ییل یونیورسٹی میں فلکیاتی طبیعیات کی پروفیسر پریا نٹراجن نےتاریک مادے کے بارے میں بتایا کہ تاریک مادہ کسی بھی ویو لینتھ پر مرتعش نہیں ہوتا، اس لیے ہم اسے نہیں دیکھ سکتے، ہم اس کا صرف بالواسطہ طور پر کشش ثقل کے ذریعے مشاہدہ کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ آیا تاریک مادہ کششِ ثقل فراہم کرتا ہے جس سے ستارے اور کہکشائیں بنتی ہیں۔