بیجنگ(نیوزڈیسک)ممکنہ طور پر چینی ہیکرز بھارت سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے متعدد ممالک کی حکومتوں اور تجارتی کمپنیوں کی جاسوسی کرتے رہیں ہیں۔ ایک عشرے سے جاری ان کارروائیوں میں ہیکرز کو کسی رکاوٹ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے سکیورٹی ادارے FireEye Inc کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان ہیکرز، جن کا تعلق ممکنہ طور پر چین سے ہے، نے 2005ء میں اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا اور اس دوران انہوں نے ایسے اہداف بنائے کہ وہ مختلف حکومتوں کے سیاسی، اقتصادی اور عسکری حوالوں سے اہم تصور کی جانے والی ویب سائٹس کو سائبر حملوں کا نشانہ بنا سکیں۔ فائر آئی نے پیر کو ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں مزید کہا گیا ہے کہ ان حملوں میں بھارت جیسا ملک بھی محفوظ نہیں رہا۔اس رپورٹ کے ایک مصنف رائس بولانڈ نے روئٹرز کو بتایا کہ ان منظم سائبر حملوں اور کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان ہیکرز کو ریاستی سطح پر سربراہی حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت زیادہ امکان ہے کہ ان ہیکرز کو بیجنگ حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ تاہم چینی حکومت ایسے الزامات ہمیشہ ہی رد کرتی رہی ہے۔فائر آئی نامی ادارے کے ایشیا پیسفک کے لیے چیف ٹیکنالوجی آفسیر برائس بولانڈ نے کہا کہ سائبر حملوں کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے سروَرز جو سائبر حملوں میں ملوث ہیں، وہ ابھی تک فعال ہیں اور فائر آئی ابھی بھی اپنے کلائنٹس پر ہونے والے حملوں کو دیکھ سکتا ہے۔ روئٹرز اس رپورٹ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ ہیکرز اب تک کیا کیا معلومات چوری کر چکے ہیںاس تازہ رپورٹ پر چینی حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے ان تازہ الزامات کے جواب میں کہا، ”میں اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ بیجنگ حکومت نہ صرف ہیکرز کے خلاف کریک ڈاو¿ن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ ملک میں ایسے سائبر حملوں پر پابندی بھی عائد کر رکھی ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ہیکنگ تمام حکومتوں کے لیے ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور اس معاملے سے نمٹنے کے لیے تعاون کی ضرورت ہے۔برائس بولانڈ کے بقول سائبر حملے اتنے منظم انداز میں کیے جا رہے ہیں کہ اس بارے میں پتہ چلانا کہ یہ کہاں سے ہو رہے ہیں، ممکن نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ حملے نہ صرف حکومتوں کی ویب سائٹس پر ہو رہے ہیں بلکہ آسیان کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف کمپنیوں کے علاوہ ایسے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو چین کے معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔بولانڈ نے بتایا کہ ایک عشرے سے جاری ان سائبر حملوں میں بھارت اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں کام کرنے والے تعمیراتی، توانائی، ٹرانپسورٹ، ٹیلی کمیونیکشن اور ایوی ایشن کے شعبوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معلوم نہیں کہ ایسے حملوں سے کتنا نقصان ہو چکا ہے لیکن ممکن ہے کہ ان حملوں کا اثر بہت زیادہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ ہیکرز اب تک کیا کیا معلومات چوری کر چکے ہیں۔