اسلام آباد(نیوزڈیسک)پاکستان ٹیلی کمیونیشن اتھارٹی کے چیئرمین سید اسماعیل شاہ نے کہا ہے کہ ’یوٹیوب پر عائد پابندی تب تک ختم نہیں جا سکتی جب تک اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا حکم تبدیل نہ ہو یا پھر پارلیمان سیکیورٹی کے بل کا وہ ڈرافٹ پاس نہیں کرتی جس سے پی ٹی اے کو بااختیار بنایا جائے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی ٹی اے کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ’اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے۔ متعبر جج صاحبان یہی طے کریں گے کہ آیا پی ٹی اے کو حکومتی احکامات پرانٹرنیٹ پر ویب سائٹس پر پابندی عائد کرنی چاہیے یا اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔‘پی ٹی اے کہ چیئرمین نے بتایا کہ ’ان کا ادارہ سپریم کورٹ کے حکم کےمطابق اِس وقت صرف شہریوں کی شکایات پر نامناسب مواد بند کر سکتا ہے۔‘اس سلسلے میں انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ ’بظاہر پی ٹی اے کے ایکٹ میں مواد پر پابندی لگانے کا واضح قانون یا طریقہ کار موجود نہیں کیونکہ اس ایکٹ کے مطابق پی ٹی اے بظاہر لائسنس یا آلات سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے مگر انٹرنیٹ پر مواد پر پابندی لگانا براہ راست ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا جب تک کہ عدالتی یا حکومتی کور نہ ہو۔‘انٹرنیٹ پاکستان سمیت بہت سے ملکوں کے لیے اب بھی نئی چیز ہے اس لیے کیا انٹرنیٹ پر جانا چاہیہے اور کیا نہیں اس سے متعلق پیچیدگیاں موجود ہیں۔
چیرمین پی ٹی اے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ وہ یہی موقف سپریم کورٹ میں پیش کریں گے۔
تین برس پہلے سپریم کورٹ نے پی ٹی اے کو حکم دیا تھا کہ یوٹیوب پر اس توہین آمیز وڈیو فلم کو بلاک کر دیا جائے جس کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
بائٹس فار آل اس پابندی کو ہائی کورٹ کے بعد بہت جلد ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والی ہے۔
تنظیم کا مو¿قف ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق یوٹیوب پر صرف وہ وڈیو فلم بلاک ہونی چاہیے تھی مگر پی ٹی اے نے دنیا کی سب سے بڑی وڈیو آرکایو کو مکمل بند کر دیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔
دوسری جانب عدالت میں پی ٹی اے کا مو¿قف یہ ہے کہ چونکہ ان کا یوٹیوب کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے اور نہ ہی متنازع مواد کو یوٹیوب سے ہٹانے کی تکنیکی قوت، اس لیے پوری ویب سائٹ کو بند کرنا پڑ رہا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والح تنظیم رپوٹرز وِدآو¿ٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے نے اس وقت 20 سے 40 ہزار کے قریب ویب سائٹس پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
پی ٹی اے کے چیئرمین سید اسماعیل شاہ نے اس متعلق کہا کہ ’ان ویب سائٹس پر زیادہ تر فحش یا ایسا مواد ہے جو کہ قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
بی بی سی چیئرمین سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ بیشتر بلوچ ویب سائٹس تو بند ہیں مگر انتہاپسندی پھیلانے والی ویب سائٹس کسی روک ٹوک کے بغیر چل رہی ہیں؟
اس پرسید اسماعیل شاہ کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیٹ پاکستان سمیت بہت سے ملکوں کے لیے اب بھی نئی چیز ہے۔ اس لیے کیا انٹرنیٹ پر جانا چاہیے اور کیا نہیں، اس سے متعلق پیچیدگیاں موجود ہیں۔‘
پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی غیر معینہ مدت کے لیے برقرار
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملہ کرنے والے حملہ آوروں کی شناخت ہوگئی
-
ڈی ایس پی عثمان حیدر کے ہاتھوں بیوی اور بیٹی کے قتل کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
-
نئے سال کی آمد ! تنخواہ دار طبقے کو بڑا ریلیف مل گیا
-
ویل ڈن شہباز شریف
-
پی ٹی آئی کو بڑا دھچکا، اہم رہنما کا پارٹی چھوڑنے کا اعلان
-
پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں بڑا اضافہ
-
پانچ سو روپے ماہانہ کمانے والے کپل شرما اب کتنی دولت کے مالک ہیں؟، جان کر دنگ رہ جائیں گے
-
ڈی ایس پی عثمان حیدر کی بیوی ور بیٹی کی گمشدگی کا معمہ حل،ملزم نے خود قتل کرنے کا اعتراف کرلیا
-
جسم فروشی کے لیے لڑکیوں کی دبئی اسمگلنگ کرنے والا گروہ بے نقاب
-
باجوہ نے کہا رانا بہت موٹے ہوگئے ہو، جیل میں تھے تو بہت سمارٹ تھے، فیض رانا کو پھر سمارٹ بناؤ: رانا...
-
سڈنی دہشتگردی: بھارت و اسرائیل کی پاکستان کو پھنسانے کی کوشش ناکام، حملہ آور افغان شہری نکلے
-
سڈنی ساحل حملے میں ملوث ساجد اکرم کے بھارتی ہونے کا انکشاف
-
طلبہ میں 7 لاکھ کروم بُکس تقسیم کرنے کا اعلان
-
حکومت نے پرسنل بیگیج گاڑی امپورٹ اسکیم ختم کر دی















































