(اسلام آ باد نیوز ڈیسک )ایک نئی آئی پیڈ ایپ صارفین کو کہہ رہی ہے کہ وہ شیروں کو ٹیگ کریں تاکہ ان جانوروں کو گننے اور ان کا پتہ رکھنے والے تحقیق کاروں کی مدد ہو سکے۔انٹرنیٹ سے لی گئی تصاویر اس ایپ میں ڈالی جاتی ہیں جو کہ ایک انٹرنیٹ گیم کی طرز پر بنائی گئی ہے۔کھلاڑی جب تصاویر کو ٹیگ کرتے ہیں تو انھیں پوائٹس ملتے ہیں، اس کے علاوہ کھلاڑی شیروں کے ارد گرد کے ماحول اور وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں کے متعلق بتا کر پوائنٹس حاصل کر سکتے ہیں۔اس ایپ کی مدد سے ٹیم چہرے کو پہچاننے والے سافٹ ویئر کی مدد سے ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے تاکہ انفرادی طور پر جانوروں کو تلاش کرنے میں مدد ملے۔اس پروجیکٹ کو ’وائلڈ سینس‘ کہا جا رہا ہے اور یہ یونیورسٹی آف سرے میں کمپیوٹر کے ان سائنس دانوں نے تیار کیا ہے جو وائلڈ لائف کی حفاظت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اور وہ اسے عام لوگوں کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ان سائنس دانوں نے یہ ایپ انٹرنیٹ کی تصاویر کے خزانے کو آئی پیڈ کے صارفین کی مدد سے جانوروں کی حفاظت کے مفید ڈیٹا میں تبدیل کرنے کے لیے تشکیل دی ہے۔پی ایچ ڈی کے طالب علم آرون میسن نے بتایایہ انٹرنیٹ سے وہ تصاویر لے لیتی ہے جن میں لفظ شیر ہوتا ہے، لیکن اس کا مطلب ہے کہ شیروں کی سب تصاویر خواہ وہ اس نام کی بیس بال ٹیم کی ہوں، کھلونے ہوں، یا بلی یا کوئی اور پالتو جانور ہوں، وہ بھی اس میں شامل ہو جاتی ہیں۔اس کے پیچھے جنگل کے اصلی شیروں کی بھی تصاویر، جن میں سے کئی سیاحوں نے فلکر جیسی سائٹوں پر اپ لوڈ کی ہیں، اور یہ جانوروں کو مانیٹر کرنے کے لیے ایک ایسا ذریعہ ہے جس کو ابھی استعمال نہیں کیاگیا۔سو سب سے پہلے صارفین سے پوچھا جائے گا کہ کیا یہ اصلی شیر کی تصویر ہے۔ اس کے بعد وہ اس کے چہرے کی طرف اشارہ کریں گے اور تصویر کے متعلق مزید کچھ سادہ تفصیلات دیں گے۔میسن نے کہا کہ لوگ تصاویر سے انٹرایکٹ کر کے مزید معلومات بھی دے سکتے ہیں۔اس میں شامل ہو گا کہ آس پاس کا ماحول کیسا ہے، موسم کیسا ہے اور تصویر میں جانور کیا کر رہا ہے۔ مثال کے طور وہ بھاگ رہا ہے، سو رہا ہے یا کھا رہا ہے۔فوٹو سے حاصل ہونے والا ڈیٹا اکٹھا کر کے اس سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں جیسا کہ اس کا محل وقوع، وغیرہ۔اس کے بعد ان نتائج کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے جو میسن اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ایپ یا جو بھی یہ گیم کھیلے گا وہ جنگل میں جانوروں کی تعداد، تقسیم اور عمل کے متعلق مفید معلومات مہیا کرے گا۔یقیناً انٹرنیٹ پر وسائل کی کمی نہیں ہے اور یہ تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔میسن کہتے ہیں کہ ’انٹرنیٹ پر اتنی زیادہ تصاویر ہیں اور ہم نے ابھی تک انھیں پراسیس نہیں کیا ہے۔‘