اسلام آباد (این این آئی)وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ پشاور پولیس لائنز سانحہ اے پی ایس سانحے سے کم نہیں ،ضرب عضب جیسا آپریشن شروع کرنے کیلئے اتفاق رائے کی ضرورت ہے، خود کش حملہ آور نے مسجد میں پہلی صف میں خود کو اڑایا ، واقعہ میں 100افراد شہید ہوئے ،سرائیل میں بھی مسجد کے نمازیوں کیساتھ وہ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہو رہا ہے،
دہشت گردی کا بیج ہم نے خود بویا،ہمیں امریکا کا حواری بننے کے بجائے پہلے اپنا گھر درست کرنا چاہیے،دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی کرے گی جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ایک ہی خودکش تھا،بمبار کیسے پہنچا ،کس نے سہولت دی ،ادارے تحقیقات کے قریب ہیں ،انکوائری مکمل ہونے پر وزیراعظم ایوان کو اعتماد میں لیں گے،پالیسی حکومت نہیں پارلیمان دیگی،ایوان میں وزیراعظم آئینگے، آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف آئینگے، پہلے کی طرح پارلیمنٹرینز کو بریفنگ دی جائیگی ، ضرب عضب اور ردالفساد کے سبب دہشت گردی کو ہم نے کافی حد تک ختم کیا ،آج پھر اسی جذبے کی ضرورت ہے ۔منگل کو قومی اسمبلی کااجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں پشاور میں پولیس لائنز کے قریب مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں 100 افراد کی شہادت کے واقعہ کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ حالیہ تاریخ میں خیبرپختونخوا میں اس سے پہلے 2016 میں آرمی پبلک اسکول میں حملہ ہوا اور ایسے کئی واقعات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہوئے جہاں قیمتی جانیں دہشت گردی کی نذر ہوگئیں۔انہوں نے کہا کہ 2010 سے لے کر 2017 تک اس دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی گئی، پیپلزپارٹی کے دور میں یہ جنگ سوات سے شروع ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں اس کا خاتمہ بالخیر ہوا اور ملک میں کراچی سے لے کر سوات تک امن قائم ہوا۔انہوںنے کہاکہ آج سے ڈیڑھ دو سال قبل یا اس سے بھی پہلے اسی ایوان میں دو تین دفعہ بریفنگ دی گئی اور واضح طور پر بیان کیا گیا کہ
ان لوگوں سے بات چیت ہوسکتی ہے اور یہ امن کے راستے پر آسکتے ہیں اور اس پر مختلف آرا سامنے آنے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔وزیردفاع نے کہا کہ اس دوران افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار ہونے والوں کو بلا کر پاکستان میں بسایا گیا،
اس کا سب سے پہلے ثبوت سوات سے آیا، جب وہاں شہریوں نے احتجاج کیا، پھر حال ہی میں وانا میں عوام نے اپنے جذبات کا بڑی شدت سے اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ جو سانحہ گزشتہ روز ہوا ہے، مسجد میں نماز کے وقت اگلی صف میں دہشت گرد کھڑا تھا اور خود کو اڑا دیا، یہ ایک ایسا سانحہ کہ ہمیں یک جہتی کے ساتھ اسی طرح کے قومی عزم کی ضرورت ہے جو 7 یا 10 سال قبل ہوا تھا۔
وزیر دفاع نے کہاکہ یہ دہشت گردی کے بیج شروع میں ہم نے خود بوئے، افغانستان میں روس کی مداخلت ہوئی تو ہم نے اپنی خدمات امریکا کو کرائے پر دی اور اس وقت جنرل ضیاالحق حکمران تھے۔خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا فتح کے شادیانے بجاتا ہوا واپس چلا گیا اور ہم 10 سال اس سے نمٹتے رہے اور اسی دوران نائن الیون ہوا اور اس پر ایک دھمکی ملی، وہ اصلی تھا یا نقلی لیکن ہم ڈھیر ہوگئے
اور ہم ایک نئی جنگ میں شامل ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ ہماری دہلیز پر آگئی، ہمارے گھروں، بازاروں، مسجدوں، اسکولوں اور عوامی مقامات پر آئی اور ایک عرصے تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔انہوںنے کہاکہ ان لوگوں کو آج سے دو یا ڈیڑھ سال پہلے لا کر بسایا گیا جو غلط فیصلہ تھا اور ایک ایسی پالیسی کا شاخسانہ تھا جو تباہ کن ثابت ہوا، ان لوگوں نے امن دیکھا بھی نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امن کے گہوارے کے معاشرے میں آکر رہ سکیں گے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسجدوں میں نمازیوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہوتا ہے، ہم بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں ہم سب سے بڑی اسلامی مملکت ہیں اور کلمے پر ہماری بنیاد ہے تاہم کیا ہمارے اعمال اس بنیاد کلمے کے مطابق ہے۔وزیردفاع نے کہا کہ مسجد کے اندر نماز کے دوران قتل عام نہ بھارت میں ہوتا ہے
نہ اسرائیل میں ہوتا ہے جو ہمارے دشمن ہیں لیکن پاکستان میں ہوتا ہے جہاں جتنے فرقے ہیں، اتنی دینی جماعتیں اور وہ سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آج سے ڈیڑھ دو سال قبل اجلاس میں جو بھی فیصلے کیے گئے وہ اس ایوان سے منظور نہیں ہوئے تھے، یہاں پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی، ہمیں ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ یہ یہ سلسلہ ہو رہا ہے۔وزیر دفاع نے کہاکہ گزشتہ روز جو خون پشاور میں بہایا گیا
اس کا حساب کون دے گا، کون ان سپاہیوں کے لواحقین کو بتائے گا کہ ان کے پیارے کس طرح شہید ہوئے، یہ مرحلہ ایسا ہے یہاں پر ہمیں اپنے گریبان پر جھانکنا پڑے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور یہ لوگ کیوں لائے گئے۔خواجہ آصف نے کہا کہ آج بھی اس واقعے کی جس طرح مذمت کی جانی چاہیے، اس طرح کی آواز نہیں آرہی ہے اور اس پر بھی مصلحت سے کام لیا جا رہا ہے، ساری قوم کو متحد ہونا چاہیے،
پھر دہشت گردی کا مقابلہ ہوگا۔انہوںنے کہاکہ یہ کسی ایک فرقے یا طبقے کی جنگ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی جنگ ہے، یہ کسی ایک مذہب کی بھی جنگ نہیں، ہماری اقلیتیں بھی اس جنگ کا شکار ہوئی ہیں، ہماری حالیہ تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اس جنگ میں کوئی تفریق نہیں ہے، ہر چیز کنفیوڑن کا شکار ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایوان حکومت کو رہنمائی فرمائے کہ اس دہشت گردی کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے،
ہماری افواج نے پہلے بھی امن دیا ہے قوم کو، 83 ہزار شہادتیں ہیں، عوام، فوج، پولیس اور پیرا ملٹری کی شہادتیں ہیں اور 126 ارب ڈالر اس دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے۔وزیردفاع نے کہاکہ کیا دنیا میں کہیں ہماری اس وجہ سے عزت ہوتی ہے یا دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے کیونکہ ہم آپس میں بھی دہشت گردی کرتے ہیں، اب تو سیاست میں بھی دہشت گردی آگئی ہے، الفاظ کی دہشت گردی آگئی ہے،
طرز زندگی اور گفتگو میں دہشت گردی آگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پچھلے 6 سال کے اندر جس طرح قوم کا مزاج بدلا ہے اس کی گواہی سوشل میڈیا میں مل جائے گی، ہم نے 126 ارب ڈالر گنوایا اور ہم 400 اور 500 ملین ڈالر کے لیے ساری دنیا میں بھیک مانگتے ہیں، ہم نے اپنا ملک گروی رکھا ہوا ہے۔انہوںنے کہاکہ بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا اور آج ہماری اور ان کی معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے،
ہمیں سپرپاورز کا آلہ کار بننے کا شوق بڑا پرانا ہے، 60 اور 50 کی دہائی سے شروع ہوا جب یہاں سے یو ٹو اڑا تھا اور کیا وہ طاقتیں آپ کے ساتھ کھڑی ہیں، کوئی نہیں، اس جنگ میں پاکستان اکیلا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں اپنے احتساب کی ضرورت ہے، بجائے یہ کہ ہم دہشت گردی کا شاخسانہ کہیں اور ڈھونڈیں، اگر انہوں نے بیسز بنائی ہیں یا افغانستان کی سرزمین استعمال ہوتی ہے تو
اس میں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ وہ بھی ہماری لائبلیٹی بن جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کی بہتری چاہتے ہیں، ہمارا برادر ملک ہے، وہاں امن ہوگا تو ہمارے ہاں بھی امن ہوگا لیکن پچھلے 25 یا 30 سال کی تاریخ دیکھیں تو ہم نے وہاں کیا کچھ کیا ہے، ساڑھے 4 لاکھ افغان شہری مصدقہ دستاویزات پر پاکستان آئے اور واپس نہیں گئے۔خواجہ آصف نے کہا کہ ان میں کون دہشت گرد ہے اور کون دہشت گرد نہیں
اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ تعداد سرکاری ہے، ہمارے یہاں ڈالر کا بحران ہوا تو بوریاں بھر بھر کر ڈالر افغانستان گیا اور ڈالر آسمان پر پہنچ گیا۔انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ افغان شہری ہیں اور اس کے علاوہ 30 یا 35 لاکھ افغان شہری یہاں ہیں اور افغانستان کی تقریباً 50 لاکھ آبادی کا روزگار پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے ٹرانزٹ ٹریڈ کی اجازت دی ہے،
یہ سارا ایک بھائی دوسرے بھائی کے لیے مدد کے لیے کر رہا ہے، دوحہ معاہدے پر انہوں نے دستخط کیے ہوئے ہیں کہ ان کی سرزمین کسی ملک یا کسی ہمسائے کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔افغان طالبان کا نام لیے بغیر انہوںنے کہاکہ یہ لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ان کے ساتھ جنگ لڑ چکے ہیں اور وہ ان کا قرض اتار رہے ہیں، پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہے ہیں،
سرحد پار سے جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا اندرونی خلفشار وہ ہمیں لے بیٹھ گیا، کیا ہم اس ایوان میں ایک مقتدرہ ایوان کے اراکین ہیں لیکن کیا ہم اس بات کو دعوے سے سینے پر ہاتھ مار کر کہہ سکتے کہ ہم مقتدرہ ہیں، ہم تو ایک رہن اور گروی رکھی ہوئی قوم ہیں، جس کے اپنے ہاتھ میں اپنا مستقبل نہیں ہے اور ماضی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ تباہی کا
یہ سلسلہ اور سفر ہم نے خود طے کیا، ہم نے خود اس منزل کا تعین کیا۔انہوںنے کہاکہ اگر آج سے 25، 30 یا 40 سال پہلے ہم امریکا کے حواری نہ بنے ہوتے، میں ان کے ساتھ اچھے تعلقات کا حامی ہوں لیکن ان کے کہنے پر ہمیں جنگیں نہیں لڑنی چاہیے تھی، ان کے دوام یا اقتدار اور ان کے بین الاقوامی اثر و رسوخ کے لیے جنگیں نہیں لڑنی چاہیے تھی۔وزیردفاع نے کہا کہ ہمیں پہلے اپنا گھر درست کرنا پڑے گا، یہاں اقتدار کے غم میں ایک شخص باولا ہوگیا اور ملک کی تباہی کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے
لیکن ہم اس ایوان میں منتخب اور قوم کے رہنما ہیں، ہمیں وہ کردار ادا کرنا چاہیے، جس کا آج کے حالات تقاضا کر رہے ہیں۔اجلاس کے دور ان چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی نور عالم خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سارے پختون پاکستان سے پیار کرتے ہیں ،مجھے آپ پالیسی بتائیں کہ وہ کیا ہے ؟۔چیئرمین پی اے سی نے سکیورٹی اداروں سے پارلیمنٹ کو بریفنگ کا مطالبہ کر تے ہوئے کہاکہ
میری چیکنگ ہوتی ہے ،افغانی تو ہر جگہ پھر رہے ہیں ،پاکستانیوں کو روکا جاتا ہے ،ان کے کارڈ بنائے جاتے ہیں ،ہمیں بتا دیں کہ ہمارے ساتھ آپ نے کیا کرنا ہے ، پھر ہمارے بچوں خواتین اور مردوں نے مرنا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کے پی کے کے پولیس سب سے کم تنخواہیں ہیں ،کوئی اضافہ نہیں ہوتا ،پنجاب میں کوئی شہیدہو تو کروڑوں ملتے ہیں ہمارے سپاہی ہو دس لاکھ دیئے جاتے ہیں ،
ہمارا کلچر ختم کر کے رکھ دیا گیا ہے ،قومی سلامتی کا اجلاس بلایا جائے ،ان سے پوچھیں کیا کرنا ہے ،افغانیوں کا مسئلہ حل کریں ،پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایران میں افغانی کیمپوں میں مقیم ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ ڈار صاحب کہاں ہیں ،ڈالر کہاں گئے ،اسٹیٹ بنک گورنر نے 275پر پہنچا دیا ۔ انہوںنے کہاکہ ہم سب سے زیادہ قربانی دیتے ہیں ،سب سے زیادہ وفادار بھی ہم ہیں ،
وزیراعظم سے گزارش ہے ایوان میں آکر پالیسی بیان دیں ۔ انہوںنے کہاکہ کے پی کے پولیس اور یف سی سب سے زیادہ متاثر ہے ان کا خیال کیا جائیوزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہاکہ نور عالم کے جذبات کا احترام ہے ،انکی گفتگو سے اتفاق کرتا ہوں ۔ انہوںنے کہاکہ پشاور یا لاہور کا معاملہ نہیں ،پوری قوم کے ایسے ہی جذبات ہیں۔انہوںنے کہاکہ کئی واقعات لاہور میں بھی ہوئے جس میں سو سے زائد افراد نشانہ بنے ،
کئی افسران ان واقعات میں شہید ہوئے ۔ انہوںنے کہاکہ ننانوے فیصد واقعات میں خود کش بمباروں کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا ان کا تعلق جس علاقے سے بھی تھا وہ پاکستان دشمن تھے اور گمراہی کا شکار ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ پنجاب سے ایک آواز بھی اٹھی ہو کہ ہمیں کس بات کی سزا دے رہے ہیں تو اسکی مذمت کروں گا،ہمارا دکھ سانجھا ہے۔ ورزیر داخلہ نے کہاکہ کوئی ضرورت نہیں تھی کہ
ہم مجاہد تیار کرتے، پرائی لڑائی لڑتے،ایک المیہ ہے ہم نے مجاہدین بنائے جو بعد میں دہشت گرد بن گئے ،ہم میں کوتاہیاں ضرور ہیں مگر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دیں ،ہمارے فوجی جوان، کے پی پولیس، سی ٹی ڈی سمیت پوری قوم نے قربانیاں دی ہیں ،اس وقت پوری قوم ان شہدا کیساتھ کھڑی ہے۔ انہوںنے کہاکہ کہا جارہا ہے کہ پالیسی حکومت بنائے گی،یہ پالیسی حکومت نہیں یہ پارلیمان دے گی،اس ایوان میں وزیراعظم آئینگے، آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف آئینگے،
پہلے کی طرح پارلیمنٹرینز کو بریفنگ دی جائیگی ،پہلے کی طرح پارلیمنٹرینز کو بریفنگ دی جائے گی ،آگے کا راستہ تلاش کیا جائے گا ۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز سب پشاور گئے تھے ،وہاں بھی ساری باتیں ہوئی ہیں ،وزیراعظم نے ہدایت کی کہ سارا معاملہ ایوان کے سامنے رکھیں ،وزیراعظم اور عسکری قیادت بھی ایوان کی رہنمائی حاصل کرے گی۔ انہوںنے کہاکہ ہم ہر قیمت پر اس دہشت گردی کی
جنگ جیتیں گے ،ہم اسی جذبے ،اسی پالیسی کے تحت آگے بڑھیں گے جو سانحہ اے پی ایس کے موقع پر بنائی گئی تھی ۔ انہوںنے کہاکہ ہمارا قائد آج بھی وہی ہے جس نے 126 دن دھرنا دے کر تذلیل کرنیوالے کو بھی قومی سلامتی کمیٹی کیلئے کال کرکے مذاکرات میں شامل کیا ۔ انہوںنے کہاکہ ضرب عضب اور ردالفساد کے سبب دہشت گردی کو ہم نے کافی حد تک ختم کیا آج پھر اسی جذبے کی ضرورت ہے
،اس بات کا ذکر ہونا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ سابق حکومت نے ایسے لوگوں کو چھوڑا جنہیں سزائے موت ہوچکی تھی ،اب نئے سرے سے وزیراعظم، عسکری قیادت اس ایوان کو اعتماد میں لے اور پالیسی مرتب کرے ۔ انہوںنے کہاکہ پچھلی حکومت کی فاش غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ واقعہ پولیس لائنز کی مسجد میں ہوا،
وہاں پر وزیراعظم کا بھی سوال تھا ،یہ ریڈ زون کا علاقہ تھا تو کیسے یہ سانحہ ہوا ؟،اس ایریا میں بعض فیملیز بھی رہتی ہیں اور عام افراد بھی بعض ایسی جگہوں پر رہتے ہیں ،آئی جی کے پی نے بتایا کہ امکان ہے کہ کسی سویلین رہائشی خاندان نے اسکی سہولت کاری کی ہو۔انہوںنے کہاکہ اس ایرامیں چھ سات سو فیملی رہایش پزیر ہیں ،عام لوگوں سے متعلقہ دفاتر بھی ایریا میں موجود ہیں ،ابھی کوئی بات حتمی نہیں کہہ سکتے ،
جو رہائش پزیر ہیں ان میں سے کسی نے سہولت کاری کی ہو گی آئی جی کا خدشہ ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اب تک سو شہادتیں ہو چکی ہیں ،تین سویلین ،ستانوے پولیس آفیسرز اور جوان ہیں ،ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے ،دو سو سے زائد زخمیوں میں ستائیس تشویشناک ہیں ،ریسکیو آپریشن مکمل ہوگیا
اورملبہ ہٹا لیا گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ایک ہی خودکش تھا،بمبار کیسے پہنچا ،کس نے سہولت دی ،ادارے تحقیقات کے قریب ہیں ،انکوائری مکمل ہونے پر وزیراعظم ایوان کو اعتماد میں لیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ یہ واقعہ پاکستان کے خلاف ہے ،قوم کے خلاف ہے ۔ انہوںنے کہاکہ یقین دلاتا ہوں ہر شہید وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اس کا احترام اور دکھ اپنے عزیز جیسا ہے۔