لاہور( این این آئی) لاہور ہائیکور ٹ نے رمضان بازاروں میں چینی کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے رمضان بازاروں کی قانونی حیثیت پر نوٹس لے لیا جبکہ فاضل عدالت نے سیکرٹری انڈسٹریز ،ڈپٹی کمشنر اوردیگر کو چینی کی قیمتوںکے تعین اور اس کی مارکیٹ میں سپلائی کو مزید بہتر بنانے کیلئے ہدایت جاری کرتے ہوئے میٹنگز میں بہتر
لائحہ عمل تیار کر کے عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کر دی ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد جمیل خان نے درخواست پر سماعت کی ۔ اس موقع پر اعلیٰ افسران بھی پیش ہوئے ۔فاضل عدالت نے استفسار کیا بتایا جائے کہ پنجاب حکومت کیسے رمضان بازار چلا سکتی ہے، رمضان بازاروں کیلئے اب تک ہر سال کتنا کتنا بجٹ رکھا گیا، رمضان بازاروں میں کتنی چینی شہریوں تک پہنچائی گئی تمام تفصیلات دی جائیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ اشیا ئے خور و نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے رولز اور پالیسی کیلئے میٹنگ کی جائے ۔جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ حکومت مارکیٹ کی طاقت کے خلاف چل رہی ہے ،حکومت خود سے قیمتوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ فاضل عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا آپ تحصیل سطح کے افسروں کو ذمہ داری کیوں نہیں دیتے، حکومت نے چینی کی تقسیم کا سارا معاملہ ڈپٹی کمشنر کے کندھوں پر ڈال دیا ہے، ہم لوکل گورنمنٹ کو اس لئے نہیں بننے دیتے سارے پیسے نہ چلے جائیں، میں ہم کا لفظ جان بوجھ
کر استعمال کر رہا ہوں۔ جسٹس شاہد جمیل خان نے سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ رمضان مارکیٹ چلانے میں حکومت پنجاب کا کیا کردار ہے، لوکل گورنمنٹ تو آپ بننے نہیں دیتے،قانون میں کیا گنجائش ہے کہ پنجاب حکومت رمضان بازار اور لائنیں لگوا سکتی ہے،
انتظامیہ کا ہر کام قانون کے تحت ہوتا ہے تو وہ قانون بتایا جائے۔ فاضل عدالت نے ڈپٹی کمشنر سے استفسار کیا آپ نے چینی کیلئے مارکیٹیں بنائیں تو وہ کس قانون کے تحت بنائیں،کوئی نوٹیفکیشن تو جاری کیا ہو گا۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہم نوٹیفکیشن ڈھونڈ رہے ہیں۔فاضل عدالت نے کہا
کہ رمضان اور ہفتہ بازار لگانے کا مقصد ہے کہ آپ اوپن مارکیٹ میں قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں،آپ نے ایک سٹنٹ چلایا ہے۔ فاضل عدالت نے استفسار کیا رمضان بازار کیسے لگائے گئے۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ سیکرٹری انڈسٹریز نے رولز آف بزنس کے تحت
سمری دی تھی۔ فاضل عدالت نے دوبارہ استفسار کیا نوٹیفکیشن کہاں ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ میرے پاس نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے۔سیکرٹری انڈسٹریز نے بتایا کہ رولز آف بزنس کلاز 11 کے تحت رمضان بازار لگائے گئے، کابینہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ صوبے میں کتنے
رمضان بازار لگیں گے، کابینہ میں منظوری کے بعد فنڈز جاری کئے جاتے ہیں۔ جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ صرف ٹینٹ لگا دینے سے قیمتیں کنٹرول نہیں ہوتیں، آٹا، چینی کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے، باقی سبزی والوں کو کیا دے رہے ہیں۔سیکرٹری صاحب کس طرح ملک چلا رہے ہیں۔
سب کو مارکیٹ میں سبسڈی دیں پھر یہ آپ کو جمعہ بازار میں لائنیں لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سیکرٹری انڈسٹریزنے کہا کہ رمضان بازار ایک ٹارگیٹڈ سبسڈی ہے۔ سرکاری وکیل نے جواب دیا اسمبلی سے رمضان بازار کیلئے بجٹ منظور کیا جاتا ہے۔ فاضل عدالت نے استفسار کیا
رمضان ریلیف ایکٹ کے تحت کتنا بجٹ رکھا جاتا ہے، رمضان بازاروں میں کتنی چینی ابھی تک بھجوائی جا چکی ہے، حکومت چینی کے اعداد و شمار پیش کرنے میں بھی ناکام رہی ہے ۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے کہا کہ 20 ہزار 989 میٹرک ٹن میں سے 12 ہزار 544 میٹرک ٹن چینی شوگر ملز
سے اٹھائی جا چکی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ لاہور کے رمضان بازاروں کیلئے 4 ہزار 41 میٹرک ٹن چینی ملی، 8 ہزار 403 میٹرک ٹن اوپن مارکیٹ میں بھجوائی گئی۔فاضل عدالت نے ریمارکس دئیے کہ چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی باقاعدہ طریقہ کار ہی موجود
نہیں ہے ،قیمتوںکو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی رولزموجود نہیں،وفاقی حکومت بنیادی اشیا ء کی قیمتوں کوفکس کرے ،قیمتوں کے تعین اور سپلائی کے لئے کوئی طریقہ کار تشکیل دے۔فاضل عدالت نے کہا کہ رمضان بازاروں اور پیکج پر اعتراض نہیں مگر اس کو جس طرح چلایا جارہا ہے اس پر اعتراض ہے،عوام کو قطاروں میں لگانا ٹھیک نہیں۔ فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت 7مئی تک ملتوی کر دی۔