اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)مروجہ قوانین کے مطابق الیکشن کمیشن میں برسراقتدار جماعت سمیت چار بڑی سیاسی جماعتوں پر فارن فنڈنگ کیس میں الزام ثابت ہونے کی صورت میں سیاسی پارٹی کو تحلیل یا اس پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھی آسکتا ہے۔ روزنامہ نوائے وقت میں
ایف ایچ شہزاد کی شائع خبر کے مطابق پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 کے سیکشن15کی ذیلی شق1 کے تحت بیرونی مالی امداد لینے کا الزام ثابت ہونے پر سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی ذیلی شق کے مطابق ملکی سالمیت اور وقار کی مخالف سیاسی جماعت کو بھی مروجہ قانون کے تحت ختم کیا جا سکتا ہے۔ قانون کے تحت سیاسی جماعت پر فارن فنڈنگ ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن اس جماعت کو کالعدم قرار دے کر سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔ آرٹیکل15کی ذیلی شق2 کے تحت نوٹیفکیشن جاری ہونے کے پندرہ یوم کے اندر وفاقی حکومت اس سیاسی جماعت کے خلاف معاملہ سپریم کورٹ کو ارسال کرے گی۔ ذیلی شق3کے تحت سپریم کورٹ کی طرف سے ریفرنس منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن فیصلہ برقرار رکھے جانے کی صورت میں سیاسی جماعت مکمل طور پر کالعدم ہو جائے گی۔ سیاسی پارٹی کالعدم ہونے پر پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 کے سیکشن16 کی ذیلی شق1 کے تحت اس سیاسی پارٹی کے
ارکان پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی اپنے عہدوں سے نا اہل ہو جائیں گے اور اس آرٹیکل کی ذیلی شق2 کے تحت نا اہل ہونے والے ارکان پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی چار سال تک کسی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ذیلی شق3 کے تحت ارکان کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن بھی
سرکاری گزٹ میں شائع کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس ان کے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر نے کیا تھا۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے اکبر ایس بابر کے موقف کی تائید کی۔ بلکہ ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر ہر پہلو سے مدد بھی کی۔
اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کے باوجود جب پاکستان تحریک انصاف کو ریلیف ملتا نظر نہ آیا تو فیصل آباد سے سرکاری ایم این اے فرخ حبیب نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف فارن فنڈنگ کا الزام لگا کر درخواست دائر کر دی۔ جبکہ الیکشن کمیشن سے جمعیت علمائے اسلام (ف)
کے بارے میں بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ان سیاسی جماعتوں کے قانونی ذرائع کے مطابق تمام جماعتوں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف شواہد موجود ہیں۔ جبکہ ان پر الزامات بھی ایک جیسے ہیں۔ اس لئے کسی ایک جماعت کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں وہ فیصلہ دوسری سیاسی
جماعتوں پر بھی بطور نظیر اپلائی ہونے کا واضح امکان ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ فارن فنڈنگ کا معاملہ کس قدر سنجیدہ، اہم اور خطرناک ہے۔ قانونی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے پاس نا اہلی سے بچنے کیلئے ایک ہی
آپشن ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دیئے جانے سے پہلے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اپنی سیاسی جماعت سے لا تعلقی کا اظہار کر دیں۔ ورنہ سیاسی جماعت کالعدم قرار دیئے جانے کی صورت میں ارکان پارلیمنٹ نا اہل ہو جائیں گے۔ اس صورت حال کے تناظر میں ان سیاسی جماعتوں نے قانونی ماہرین سے حتمی رائے طلب کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے قوانین میں ترمیم کر کے اس معاملے سے نمٹ سکتی ہیں مگر موجودہ سیاسی صورت حال میں اس کے امکانات بہت کم ہیں۔