اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئرکالم نگار منصور آفاق اپنے کالم ’’بیورو کریسی کا لیڈر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ایک طرف سے کہا گیا :عمران خان پنجابی پٹھان ہیں مگر پختون پٹھانوں کے نرغے میں ہیں، جہانگیر ترین بھی پنجابی پٹھان ہیں، ذہین آدمی ہیں مگر پختون پٹھان اعظم خان زیادہ تیز ہیں۔ وہ عمران خان سے ترین کا فاصلہ کروانے میں کامیاب ہو گئے، کل تک بنی گالا کے معاملات بھی جہانگیر ترین دیکھتے تھے، اب نئے لوگ آ گئے ہیں، ویسے جہانگیر ترین کے سیکرٹری کا سگا
بھائی انعام شاہ ابھی تک بنی گالہ کا انچارج ہے۔ جہانگیر ترین کے جانے بعد اسد عمر کے سوا کوئی اور پرانا دوست عمران خان کے قرب و جوار میں موجود نہیں، ایک مکالمہ جو سنا گیا، جہانگیر ترین سے کسی دوست نے پوچھا ’’اب آپ کیا کریں گے۔ ‘‘تو انہوں نے کہا۔ ’’ میں یہ سوچ رہا ہوں اب عمران کیا کرے گا‘‘۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جو طاقتیں عمران خان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، انہوں نے بھی جہانگیر ترین اور عمران خان میں فاصلے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ایک غیر ملکی ٹی وی نے بھی کہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اختلافات کورونا وائرس کے حفاظتی انتظامات پر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔جہاں تک جہانگیر ترین پر لگائے گئے الزامات کا تعلق ہے تو وہ بالکل غلط ہیں، صریحاً جھوٹ ہیں، رپورٹ میں بھی ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے مگر میڈیا پر اسے بہت اچھالا گیا۔ 56کروڑ روپے کی جہانگیر ترین کے لئے کوئی حیثیت نہیں، انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں 23 ارب روپے ٹیکس ادا کیا اور صرف تین ارب ریبیٹ لیا، جس میں ڈھائی ارب نون لیگ کے دور میں لیا تھا، پی ٹی آئی کے کارکن بھی جہانگیر ترین کے خلاف اپنے لیڈر کے اس فیصلے سے ناخوش ہیں اور اس معاملے کو کسی سازش کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں۔عمران خان کے گرد و نواح میں یہ شور ہے :نظام کی تبدیلی عمران خان کا ماٹو ہے، وہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں، انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑنا، چاہے کوئی اپنا ہو یا پرایا، یہی عمران خان کے سچے ہونے کی گواہی ہے کہ اس نے اپنے
گہرے دوست جہانگیر ترین کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ یہ کوئی اتنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ واقعی عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں۔سچ یہی ہے کہ اس وقت عمران خان حریفانہ کشمکش کا شکار ہیں، دونوں طرف سے ان پر دباؤ ہے۔ جہانگیر ترین کے مخالفین کی خواہش ہے کہ عمران خان پچیس اپریل کو انہیں موردِ الزام ٹھہرا دیں۔ جہانگیر ترین کے دوست چاہتے ہیں کہ
کپتان کسی غیر جانب دار شخص سے پوری انکوائری کرائیں تاکہ جہانگیر ترین کے خلاف ہونے والی سازش سے پردہ اٹھ سکے، وہ لو گ جنہوں نے بے نامی چینی کا کاروبار شروع کر رکھا ہے، انہیں سامنے لایا جائے تاکہ وہ لوگ جو عمران خان اور جہانگیر ترین میں دوریاں پیدا کرچکے ہیں۔ وہ جو صرف جہانگیر ترین کی ملوں کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں منہ کی کھائیں بلکہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے فارغ ہوں۔
جن میں سرِ فہرست ایک بیوروکریٹ کا نام ہے۔ اس کے اور جہانگیر ترین کے درمیان جھگڑا اُس دن ہوا جب جہانگیر ترین نے اسے کوئی کام کہا تو اُس نے جاکر عمران خان سے کہہ دیا کہ ’’پلیز مجھے بتائیے وزیر اعظم آپ ہیں یا جہانگیر ترین‘‘جس پر دونوں میں تلخ کلامی ہوئی۔ اس وقت تو معاملہ عمران خان نے رفع دفع کرادیا۔ جہانگیر ترین کے حلقہ احباب کا خیال ہے کہ یہ بیورو کریٹ اس وقت تو خاموش ہو گیا تھا مگر رفتہ رفتہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔