اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم ’’ٹوٹتا ہوا بھارت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔جس دن بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندر دامودر داس مودی وزیراعظم بنے تو مجھے امریکہ میں مقیم میرے ایک سکھ دوست نے کہا کہ ’’آج سے بھارت کےٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا ہے‘‘۔ میں نے وجہ پوچھی تو میرے سکھ دوست نے کہا ’’مودی جو آ گیا ہے‘‘۔میں نے اپنے سکھ دوست کی
بات کو زیادہ اہمیت نہ دی کیونکہ اس الیکشن میں مودی نے ’’ہندوئوں کا ہندوستان‘‘ جیسے نعرے نہیں لگائے تھے مگر اس مرتبہ تو مودی خالصتاً ہندو ازم کے نعرے تلے جیتا۔ اس مرتبہ الیکشن مہم میں مودی نے مسلمانوں سے نفرت کا جی بھر کر مظاہرہ کیا۔اس مرتبہ مودی الیکشن جیت کر کٹر ہندوئوں کے ساتھ ایوانِ اقتدار میں داخل ہوا تو میرے سکھ دوست نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’’آپ کو میری پہلی بات یاد ہے؟ اب میں کہتا ہوں کہ مودی بھارت کیلئے گوربا چوف ثابت ہوگا‘‘۔اس مرتبہ جب مودی نے سازشوں کا آغاز کیا تو ساتھ ہی آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھٹی دے دی۔ ان غنڈوں نے مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنا شروع کی تو سیکولر انڈیا کا چہرہ سیاہ ہونا شروع ہو گیا۔ نریندر مودی کے تھاپڑے کے بعد ان غنڈوں نے باقی اقلیتوں کے ساتھ بھی ظلم و ستم کا آغاز کیا۔ آج کے بھارت میں اگرچہ سکھ، دلت، بدھ مت اور عیسائی غیر محفوظ ہیں مگر سب سے زیادہ ٹارگٹ مسلمان کو کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں کے گھر، عبادت گاہیں اور مدرسے محفوظ نہیں ہیں، آج کے بھارت میں موت گلیوں میں پھرتی رہتی ہے۔ موت اور تشدد مل کر مسلمان ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے اس چلن سے بھارت کے سنجیدہ فکر طبقے پریشان ہیں، وہ سیکولر انڈیا کو پکار رہے ہیں جبکہ مودی سرکار ہر وہ کام کر رہی ہے جو سیکولر انڈیا کے چہرے پر دھبہ ہو۔ بھارت تاج محل کی کمائی تو کھاتا ہے مگر
تاج محل بنانے والوں کو برداشت کرنے سے قاصر ہے۔بھارت میں کئی برسوں سے کشمیر اور خالصتان سمیت کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ پانچ اگست کے بعد پورا کشمیر قید ہے مگر وہاں آزادی کا جذبہ پہلے سے زیادہ جوان ہے۔کرتارپور راہداری کھلنے کے بعد خالصتان تحریک میں تازگی آگئی ہے۔ آج کے بھارت کیلئے کشمیر اور خالصتان کے علاوہ میزورام اور ناگا لینڈ پر کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے،
اس مشکل میں مودی جی چکرا گئے ہیں اور کانپور میں گنگا گھاٹ پر منہ کے بل گر گئے۔ مودی کا یہ گرنا ان کی اندرونی پریشانیوں کا اظہار ہے۔مودی پریشان کیوں نہ ہو، مودی کے بھارت میں ایک طرف معیشت گرتی جا رہی ہے، بینک بند ہو رہے ہیں تو دوسری طرف بکھرتا ہوا بھارت ٹوٹنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ تشدد کی حالیہ لہر نے بھارت کی کئی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔مغربی بنگال میں
مظاہرین نے پانچ ٹرینوں، تین ریلوے اسٹیشنوں سمیت کئی گاڑیوں کو جلا دیا ہے، آسام میں سرکاری ملازمین نے کام بند کر دیا ہے، اسکول، کالج بند ہو گئے ہیں۔ کشمیر میں چار مہینوں سے کرفیو ہے، تازہ لہر نے کئی اور ریاستوں میں کرفیو لگوا دیا ہے۔مودی کے اپنے صوبے گجرات میں بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کیرالہ اور کرناٹک میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ 21دسمبر کو لالو پرشاد یادیو ریاست بہار کو
بند کروائے گا، لالو پرشاد کی مقبولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، آج بھی بہار میں یہ نعرے عام لگتے ہیں کہ سبزی میں جب تک آلو رہے گا۔۔۔۔سیاست میں اپنی لالو رہے گا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طالبعلم مظاہروں کیلئے بیتاب ہیں۔ ان کے مظاہروں کا انتظار کیے بغیر بھارتی سیکورٹی فورسز نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی پر دھاوا بول دیا، وہاں رات کی تاریکی میں طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا جا رہا ہے،
آنسو گیس کا بےدریغ استعمال کیا جا رہا ہے، سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ مسلمان طالبات کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔حالیہ پُرتشدد مظاہرے اس قدر سنگین ہیں کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر کرنے سے منع کر دیا ہے۔ بھارت میں ہنگامے پھوٹنے کی وجہ مسلمانوں کے خلاف قانون سازی ہے۔مسلمانوں کے خلاف متنازع بل لوک سبھا سے ہوتا ہوا راجیہ سبھا سے پاس ہو کر
صدارتی دستخط بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس متنازع بل کی کئی ملکوں نے مذمت کی ہے۔ مذمت کرنے والوں میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں، اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کے لئے بھارت کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں مگر اس قانون کے خلاف اٹھنے والی آوازوں نے کئی ریاستوں کیلئے آزادی کے دروازے کھول دیے ہیں۔بھارت کو پچھلے بیس برسوں میں اتنی سخت مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا،
جتنی سخت مزاحمت کا سامنا اس وقت ہے۔ مزاحمت کا یہ سلسلہ بھارت کے اندر اور باہر دونوں اطراف سے ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت امریکہ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ امریکی ایکشن کمیٹی امیت شاہ پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ بھارت پر زور دے رہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا خیال رکھے۔امریکی کانگریس کے اراکین کشمیریوں کی آزادی کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں۔
موجودہ حالات نے بھارت اور امریکہ کے مراسم میں تنائو پیدا کر دیا ہے۔ بھارت کے اندر بھی صورتحال بہت خراب ہے۔ہنگاموں، ہلاکتوں اور مظاہروں میں راہول گاندھی اور اسد اویسی سمیت بھارت کے کئی سیاستدانوں اور تنظیموں نے سپریم کورٹ کا رخ کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ جانے والے بھارت کو بچانا چاہتے ہیں لیکن ان کی اس خواہش کو حسرت میں بدلنے کیلئے مودی سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہے۔
گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا پورے بھارت میں خون کی ہولی کھیلنا چاہتا ہے، اب خود بھارتیوں کو بھارت کے مستقبل کی تصویر نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ بھارتی عوام اپنے گوربا چوف کے ہاتھوں ٹوٹتا ہوا بھارت دیکھ رہے ہیں۔ بہت جلد بھارت میں بسنے والے ایک دوسرے سے احمد مشتاق کی زبان میں کہا کریں گے کہ اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے۔۔۔۔اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے