اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی و تجزیہ کار ارشاد بھٹی اپنے آج کے کالم ’’تو پھر آپ مجھے وزیراعلیٰ نہیں بنا رہے…؟ میں لکھتے ہیں کہ ’’دیکھو ارشاد مجھے پتا ہے کہ پنجاب میں گورننس کے مسائل ہیں، بیورو کریسی، کچھ وزرا عثمان بزدار سے تعاون نہیں کر رہے بلکہ بیورو کریسی تو ابھی تک شریفوں سے وفاداریاں نبھا رہی۔
شاید اس غلط فہمی میں ہے کہ شریف پھر سے اقتدار میں آنے والے لیکن عثمان بزدار ایماندار شخص ہے‘‘، میں نے مسکراتے ہوئے وزیراعظم کی بات کاٹی ’’تو پھر آپ مجھے وزیراعلیٰ نہیں بنا رہے‘‘، یہ سن کر لمحہ بھر کیلئے عمران خان چپ، حیران، پھر ہنسے اور پھر بولے ’’دو ہفتوں میں بہت کچھ بدلنے والا، ایسی تبدیلیاں آنے والیں، تم حیران رہ جاؤ گے۔‘‘اس سے پہلے میں کچھ بولتا، وزیراعظم کا اے ڈی سی چوتھی مرتبہ کمرے میں آیا، سر اگلے مہمان انتظار کر رہے بلکہ ان مہمانوں کے بعد کی میٹنگ کے لوگ بھی آچکے، میں نے گھڑی دیکھی، شام کے ساڑھے 6 بجنے والے، مطلب میں اپنے وقت سے 25 منٹ زیادہ لے چکا، میں نے اجازت چاہی، وزیراعظم سے ہاتھ ملایا اور کمرے سے نکل گیا۔تھوڑی دیر کیلئے ملاقات کہانی یہیں روک کر پہلے یہ بتا دوں وزیراعظم کے عثمان بزدار کو ایماندار کہنے پر کیوں میں نے کہا کہ ’’تو پھر آپ مجھے وزیراعلیٰ نہیں بنا رہے‘‘، یہ نہ بتایا تو آپ کو بات سمجھ آئے گی نہ بات کا مزا، یہ گزشتہ ماہ 23 اکتوبر کی سہ پہر، وزیراعظم سیکریٹریٹ، جب 40کے قریب ٹی وی اینکرز، سینئر صحافی کانفرنس روم میں بیٹھ چکے، جب وزیراعظم، خسرو بختیار، فردوس عاشق، عمر ایوب، ندیم افضل چن، ندیم بابر، شبر زیدی آکر بیٹھ چکے۔
جب ہمارے دوست اینکر عمران خان تلاوت کلام پاک کر چکے، جب وزیراعظم کی مختصر سی گفتگو کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو چکا، جب میں بزدار پرفارمنس پر تنقید کر چکا، جب ایک خاتون صحافی نے وزیراعظم سے پوچھا۔’’عثمان بزدار تبدیل ہو رہے یا نہیں‘‘ جب وزیراعظم کے جواب دینے سے پہلے میں نے کہہ دیا ’’فکر نہ کریں، عثمان بزدار قیامت سے دو دن قبل ضرور تبدیل ہو جائیں گے‘‘
تب عمران خان نے سرخ چہرے، ترش لہجے میں مجھے کہا ’’تمہیں نہ لگا دوں وزیراعلیٰ پنجاب‘‘، یہی وہ بیک گراؤنڈ جس کی وجہ سے اس بار جب وزیراعظم نے عثمان بزدار کی تعریف کی تو میں نے وزیراعظم کو ان کا طنزیہ جملہ یاد دلایا، لمحہ بھر بعد وزیراعظم کو بھی اپنی کہی بات یاد آگئی، ہم دونوں ہنسے اور پھر کوئی دوسری بات چھڑ گئی۔چار دن پہلے 21 نومبر بروز جمعرات، شام کے 5 بج رہے، کالے بادلوں سے ڈھکا آسمان، بارشی موسم، وزیراعظم ہاؤس کا پہلا گیٹ کراس کرکے جیسے ہی میں دوسرے آٹو میٹک گیٹ سے گزرا تو دائیں طرف درختوں سے ڈھکی سڑک پر نظر پڑی اور اگلے ہی لمحے ذہن کے پردہ اسکرین پر بھولی بسری یادوں کی فلم چل پڑی۔
وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوتے ہی دوسرے گیٹ سے چند گز آگے دائیں جانب اسی سڑک کے سرے پر وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کا گھر، جب ظفر اللّٰہ جمالی وزیراعظم، تب ان کے ملٹری سیکریٹری، اپنے دوست بریگیڈیئر طاہر محمود ملک سے بیسیؤں بار ملنے اس گھر آچکا، کیا کمال کے انسان تھے، کُھلے ڈُلے، یاروں کے یار، گپ ماسٹر، ہم دونوں نے اہل و عیال کے ہمراہ عمرہ بھی اکٹھے کیا، بریگیڈیئر صاحب میجر جنرل بنے، جی او سی ملیر لگے۔
ایک دن سی ایم ایچ میں روٹین ٹیسٹوں کے دوران پتا چلا انہیں برین ٹیومر اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہفتوں میں ان کی یادداشت گئی، بستر سے لگے اور ایک دن ہم سب دوستوں کو روتا دھوتا چھوڑ کر وہاں چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہ آیا۔اب میری گاڑی وزیراعظم ہاؤس کے پورچ میں پہنچ چکی تھی، میں گاڑی سے اترا، وزیراعظم ہاؤس کے ویٹنگ روم میں آیا جہاں ڈاکٹر عشرت حسین پہلے سے بیٹھے ہوئے، ان سے سلام دعا ہی ہو پائی تھی کہ ان کا بلاوا آگیا۔
پندرہ منٹ بعد مجھے لے جا کر وزیراعظم دفتر سے ملحقہ لائبریری میں بٹھا دیا گیا اور چار پانچ منٹ بعد میں وزیراعظم کے سامنے بیٹھا تھا۔وزیراعظم اس دن خوشگوار موڈ میں تھے، پُراعتماد، ریلکس، بات بات پہ ہنس رہے تھے، میرے ہر سوال کا ٹو دی پوائنٹ جواب، جیسے میں نے کہا، سنا جا رہا ’’آپ کی حکومت جانے والی‘‘، بولے ’’ خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں‘‘ میں نے کہا ’’مائنس ون فارمولے پر بھی بات ہو رہی‘‘ بولے ’’میں بھی سن چکا ہوں یہ لطیفہ‘‘ میں نے کہا ’’سینئر صحافی لکھ چکے۔
کہہ رہے، فروری، مارچ میں حکومت جا رہی‘‘ بولے ’’اگر فروری، مارچ 2025ء کی بات ہو رہی ہے تو ٹھیک ورنہ ان سب کو جنہیں میرا چہرہ پسند نہیں۔ان حاسدوں سے کہیں، اتنی جلدی بھی کیا‘‘ میں نے کہا ’’سنا جا رہا شہباز شریف وزیراعظم بن رہے‘‘ بولے ’’پتا کرو شیروانی سلوا لی ہے دیسی منڈیلا نے یا میں بھجواؤں‘‘، میں نے کہا ’’سنا جا رہا، سول،ملٹری تعلقات خراب ہو چکے‘‘ بولے ’’آئیڈیل تعلقات، ہماری خوش نصیبی، جنرل باجوہ جیسا آرمی چیف ملا، متوازن، جمہوریت پسند، میری زندگی کا بہترین آرمی چیف، یہ نہ ہوتے تو کرتار پور راہداری سے وائٹ ہاؤس، خارجہ پالیسی سے داخلی محاذ تک، ہم اتنا کچھ نہ کر پاتے۔
میں نے تو وزارتِ عظمیٰ کے پہلے 3 مہینوں میں ہی طے کر لیا تھا کہ انہیں نہیں جانے دینا‘‘۔اُس شام وزیراعظم جہاں مولانا مارچ، دھرنوں، شریفوں کی سیاست، مک مکا، این آر او پر بھی بولے، وہاں انہوں نے یہ بھی کہا ’’اب مہنگائی، بیروزگاری، گورننس، پرفارمنس میرا فوکس، پاکستان کو سرمایہ کاری کا گڑھ بنانا، ملکی زراعت، انڈسٹری میں انقلابی تبدیلیاں لانا میری خواہش‘‘، جہاں مجھ سے یہ وعدہ بھی کیا کہ آئندہ اپوزیشن پر ذاتی حملے نہیں کروں گا (گو کہ اگلے ہی دن میانوالی میں یہ وعدہ توڑ بھی دیا)۔
وہاں وزیراعظم نے اپنی والدہ کی باتیں بھی سنائیں، بتایا کیسے گھر سے نکلتے وقت والدہ درود شریف پڑھ کر مجھ پر پھونکا کرتیں، نظر اتارا کرتیں، اور تو اور اُس شام وزیراعظم نے بڑی مزیدار کافی پلائی وہ بھی بسکٹوں کے ساتھ، یہ عیاشی اور عمران خان، پہلی بار اس خوشگوار تجربے سے مستفید ہوا۔وہ وزیراعظم ہاؤس جسے عمران خان پتا نہیں یونیورسٹی بنائیں گے یا جدید تحقیقی سینٹر، اس سے نکلا تو شام کے پونے 7بج رہے تھے ،بادل مزید گہرے، ہوا مزید تیز ،واپس آتے ہوئے جہاں میرے ذہن میں وزیراعظم کا یہ فقرہ مسلسل گونج رہا تھا کہ دو ہفتوں میں جو تبدیلیاں آئیں گی، تم حیران رہ جاؤ گے۔وہاں میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ عثمان بزدار کو تبدیل کئے بنا تبدیلیاں، یہ تو ایسے ہی جیسے گُونگلوؤں سے مٹی جھاڑنا۔