اسلام آباد ( آن لائن ) پاکستان میں تقریبا 150,000افراد ایچ آئی وی اور ایڈ ز کا شکار ہیں ۔ یہ مرض تیزی سے آبادی کے مختلف طبقوں اور افراد میں پھیل رہا ہے ۔ اس متعد ی اور موزی بیماری کے زیاد ہ تر ایسے افراد شکار ہوتے ہیں جو نشہ کی لعنت میں مبتلا ہیں اور انجکشن کی صورت میں نشہ لیتے ہیں اور جنس فروش ، مخنث و ہیجڑا اورمرد پرستی کے شکار مرد، مرد سیکس ورکرز اور خواتین سیکس ورکرز کیساتھ روابط رکھتے ہیں۔ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق ایڈز کا شکار ہونے
والے افراد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ایک مخصوص طبقہ سے معاشرے کے دیگر طبقوں میں پھیل رہا ہے ۔ یہ بات نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے منیجرڈاکٹر بصیر خان اچکزئی نے میڈیا کے نمائندوں سے آگاہی بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہو ں نے کہا وزارت ہیلتھ سروسز اس مرض کے سدباب کے لیے پوری طرح کوشاں ہے ۔ جس کے لیے ہم صوبوں کو سروس ڈیلیوری پارٹنرز اور تمام فریقین (شراکت دار) کو تیکنیکی اور دیگر رہنمائی فراہم کر تی ہے تاکہ ملک سے ایچ آئی وی اور ایڈز کی روک تھام اوراسکا مکمل طور پر سدباب کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر بصیر اچکزئی نے کہا کہ پاکستان کو ایڈز فری ملک بنانے کے ابھی بھی بہت چیلنجز اور مشکلات ہیں جس کے لیے کام کرنا باقی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ افراد جو اس مرض کا شکار ہیں یا جن کی تشخیص بطور ایچ آئی وی مریض کے نہیں ہو پائی ان کو ایڈز سے بچاؤ اور روک تھام کی مناسب آگاہی کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایڈ ز کنٹرول پروگرام متاثرہ کمیونٹی کی تنظیموں کے ذریعے نئے جدید طریقوں سے ایچ آئی وی اور ایڈ زسے بچاؤ اور روک تھام کے لیے خدمات فراہم کر رہا ہے۔اس سال 12 مزید ایچ آئی وی اور ایڈ زکے سنٹرمیں اضافہ کیا گیا ہے۔ اب پورے پاکستان میں 33سنٹر کام کر رہے ہیں۔نیشنل ایڈ ز کنٹرول پروگرام ورلڈ ایڈ ز ڈے 2018کے موقع پر مختلف طبقات اور نمائندوں کی مدد سے بشمول نوجوان ،
مذہبی رہنما ، پارلیمنٹرین ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے ذریعے اپنا پیغام دینا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو ایڈز فری ملک بنایا جاسکے ۔ اس مقصد کے لیئے نیشنل ایڈ ز کنٹرول پروگرام اضافی گرانٹ گلوبل فنڈ سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں دوگناہے۔ہمیں مریض سے نہیں مرض سے نفرت کرنی چاہیے ۔ ایڈز سے بچاؤ ، روک تھام اور علاج معالجہ کی معلومات تمام لوگوں تک پہنچائیں تاکہ یہ مرض معاشرے میں مزید سرائیت نہ کرسکے اور اس کا بروقت تدارک کیا جا سکے
تاکہ کوٹ عمرانہ ، جلال پورجٹاں، لاڑکانہ اور چنیوٹ ، جیسے حالیہ واقعات میں مزید اضافہ نہ ہو سکے۔ ایچ آئی وی کا مریض اگر بروقت اپنا علاج شروع کرے اور وہ باقاعدگی سے اپنی دوائی لیتا رہے تو وہ زندگی بھر عام انسان کی طرح کام کاج کر سکتا ہے۔ اور اپنی زندگی گذار سکتا ہے۔ یہ علاج حکومت پاکستان کے ھسپتالوں میں مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس عمل کے دوران نیشنل ایڈ ز کنٹرول پروگرام (NACP)نے ایچ آئی وی اور ایڈ ز کے پھیلاؤ کو کم کرنے اور اسکی روک تھام کے لیے
مختلف جگہوں پر ایچ آئی وی کا شکار لوگوں کے ایچ آئی وی کے فری ٹیسٹ ،معائنہ اور علاج جیسے بڑے اقدامات کیے ہیں اور(NACP)قومی ادارہ برائے انسداد ایڈ ز نے بخوبی یہ خدمات ملک بھر میں 25000سے زائد افراد کو فراہم کی ہیں۔قومی پالیسی سازوں اور پروگرام مرتب کرنے والے افراد نے اس متعدی مرض کی روک تھام کے لیے جدید ترین طریقہ کار اختیار کر تے ہوئے فیصلہ سازوں کو سائنسی بنیادوں اور تحقیق پر مبنی معلومات فراہم کی ہے۔ ملک میں اس وقت وفاقی اور
صوبائی ایڈز حکمت عمل اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کی یقین دہائی ، اقوام متحدہ اور دیگرپارٹنرز ، سول سوسائٹی اور دیگر نمایاں طبقوں کی شراکت داری کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ تاکہ ملک سے ہر ممکن طریقے سے ایڈز کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکے ۔ اس کے علاوہ قومی پروگرام برائے تدارک و انسداد ایڈز اپنے تمام فریقین کی شراکت سے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے بھی مصروف عمل ہے کہ اس مرض کاجڑسے خاتمہ کیا جاسکے جس کی وجہ سے لوگ اس پر بات نہیں کرتے اور مریض کو تعصب کے شکارکے باعث اسے معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتاہے بلکہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ وہ جو اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں یا زیر مشاہدہ ہیں ان سے نفرت نہ کی جائے۔