ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges) پڑھ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر مورج ہے‘ فرنچ زبان میں آخری حرف ساقط ہوتا ہے اور جی کی آواز جی ہی نکلتی ہے لہٰذا یہ مورج ہے‘ ٹائون میں فرنچ زبان بولی جاتی ہے اور یہ جنیوا سے صرف 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ لیک جنیوا سوئٹزر لینڈ کی سب سے بڑی جھیل ہے‘ آپ اگر اس کے گرد چکر لگائیں تو آپ کو ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا‘ اس کی ایک سائیڈ پر جنیوا اور دوسری سائیڈ پر مونترو (Montreux) کا ٹائون ہے جب کہ دائیں بائیں جھیل کی ایک سائیڈ پر سوئٹزر لینڈ کے خوب صورت اور مہنگے ٹائونز ہیں‘ جھیل کی دوسری سائیڈ پر فرانسیسی قصبے ہیں‘ ایویان (Evian) نام کا قصبہ بھی ان میں شامل ہے‘ اس کا منرل واٹر پوری دنیا میں مشہور ہے شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ایویان منرل واٹر کا نام ایویان قصبے کے نام پر ہے‘ فرانسیسی قصبوں کے پیچھے مائونٹ بلینک کے پہاڑ ہیں‘ یہ یورپ کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے جس پر گرمیوں میں بھی برف جمی رہتی ہے‘
پہاڑ کے دامن میں شامنئی (Chamonix) کا قصبہ ہے‘ وہاں سے مائونٹ بلینک کے لیے دو کیبل کار چلتی ہیں‘ ایک کیبل کار پہاڑ کی بلندی پر گلیشیئر پر لے جاتی ہے‘ وہاں گرمیوں میں بھی درجہ حرارت صفر سے کم ہوتا ہے جب کہ سردیوں میں وہاں شدید سردی ہوتی ہے‘ مجھے ایک بار جنوری میں منفی 22 سینٹی گریڈ پر مائونٹ بلینک پر جانے کا اتفاق ہوا‘ میں آج تک اس ٹھنڈ کو نہیں بھلا سکا جب کہ دوسری کیبل کار وادی کی دوسری سائیڈ پر ہے‘ اس کے انتہائی بلند مقام سے پوری وادی اور مائونٹ بلینک دونوں نظر آتے ہیں‘ ہم 21 جولائی کو شامنئی گئے لیکن وقت کم ہونے کی وجہ سے پہاڑ پر نہیں جا سکے‘ ایویان گائوں مائونٹ بلینک کے قدموں میں ہے اور اس کے منرل واٹر کا سورس گلیشیئر ہیں‘ ایویان کمپنی نے ٹائون میں واٹر میوزیم بنا رکھا ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے ہمارا منرل واٹر چار سال میں تیار ہو تا ہے‘ آج پہاڑ پر جو برف گرے گی وہ چار سال بعد پانی بن کر منہ تک پہنچے گی‘ فرنچ سائیڈ پر انیسی (Annecy) کا قصبہ بھی ہے‘ یہ خوب صورت پرانا قصبہ ہے جس کے درمیان سے نہریں گزرتی ہیں اور ان پر انتہائی خوب صورت پل ہیں‘ یہ یورپ کی خوب صورت ترین جھیل ہے اور یونیسکو کے ورلڈ ہیرٹیج میں شامل ہے‘ یہ سب ٹائونز دیکھنے لائق ہیں لیکن ہم مورج میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
مورج جنیوا سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے‘ اس کی سائیڈ جھیل کی طرف کھلتی ہے جب کہ دوسری پہاڑ کی اترائیوں پر واقع ہے اور اس پر دور دور تک انگور کے باغ ہیں‘ مورج امراء کا علاقہ ہونے کی وجہ سے بہت مہنگا ہے‘ ہم جھیل کے کنارے چار بیڈ رومز کے فلیٹ میں مقیم رہے‘ فلیٹ بھارت کے ایک سکھ تاجر کی ملکیت تھا‘ ان کا نامن موہن سنگھ ہے لیکن یہ سردار مکھنی کے نام سے مشہور ہیں‘ انٹیریئر ڈیکوریشن کا کام کرتے ہیں‘ مہنگا فرنیچر بھارت اور سری لنکا میں بیچتے ہیں‘ خود مورج سے دس کلو میٹر دور رول (Rulle) کے گائوں میں رہتے ہیں‘ انگور کے وسیع باغ اور وائینری کے مالک ہیں‘ مکھنی کے نام سے وائین بناتے ہیں اور دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ خوش حال شخص اور بلا کے شراب نوش ہیں‘دوسرے لوگوں کو شراب نوشی کی باقاعدہ ترغیب بھی دیتے رہتے ہیں‘ ان کے بقول دنیا میں شراب سے بڑ ی کوئی نعمت نہیں‘ مجھے ان کے فلیٹ میں رہنے اور ان کا گھر دیکھنے کا موقع ملا‘ یہ دونوں بے انتہا خوب صورت تھے‘ فلیٹ کی بالکونی سے پوری جھیل جنیوا نظر آتی تھی‘ ساتھ ہی ٹریک تھا جو جھیل کے ساتھ ساتھ 150 کلومیٹر تک چلا جاتا تھا‘ لوگ سارا دن اس پر دوڑ لگاتے رہتے تھے یا سائیکل چلاتے تھے‘ جھیل میں دن بھر موٹر بوٹس تیرتی رہتی تھیں‘ وہ جگہ بہت پرسکون اور روحانی تھی‘ میرا زیادہ تر وقت بالکونی اور جھیل کے کنارے گزرتا رہا‘ قصبے کا بازار دس منٹ کی واک پر تھا‘ اس میں گنی چنی کافی شاپس‘ بیکریاں اور ریستوران تھے اور وہ بھی بہت جلد بند ہو جاتے تھے‘ جھیل دن میں چارمرتبہ رنگ بدلتی تھی‘ صبح کے وقت اس کا پانی سرخ ہوتا تھا‘ دوپہر کے وقت یہ دودھیا ہو جاتی تھی‘ شام کے وقت سرمئی ہو جاتی تھی جب کہ غروب آفتاب کے وقت اس میں آگ سی لگ جاتی تھی‘ میں نے ایک شام جھیل میں ایک عجیب منظر دیکھا‘ ہر طرف سرمئی کہرا بکھرا ہوا تھا لیکن جھیل کے درمیان میں برف کے مختلف سائز کے بلاک تیر رہے تھے‘
میں حیران ہوگیا‘ غور کیا تو پتا چلا جھیل میں دودھیا رنگ کی کشتیاں ہیں‘ سورج نے ڈوبنے سے قبل بادلوں کی چادر سرکا کر جھیل میں تانک جھانک شروع کر دی تھی‘ سورج کی روشنی جھیل میں تیرتی سفید موٹر بوٹس پر پڑی تو اس نے انہیں سفید برف کے ٹکڑے بنا دیا‘ وہ منظر بہت قیمتی تھا‘ صبح کے وقت بے شمار لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جھیل کے کنارے پہنچ جاتے تھے‘ بچے سائیکل چلاتے تھے‘ نوجوان جاگنگ کرتے تھے جب کہ خواتین اور بزرگ واک کرتے تھے‘ میں واک کرتا ہوا آخر تک چلا جاتا تھا‘ کافی شاپ سے کافی لیتا تھا اور جھیل کے کنارے بیٹھ جاتا تھا‘ سوئٹزر لینڈ میں’’ لاتے میکاتو‘‘ نام کی انتہائی لذیذ کافی ملتی ہے‘ کافی کا یہ سٹائل صرف سوئٹزر لینڈ میں ملتا ہے‘ اس میں دو قسم کا دودھ استعمال ہوتا ہے‘ نیچے دودھ کی تہہ ہوتی ہے‘ اس کے اوپر کافی اور آخر میں جھاگ کی بھاری تہہ‘ یہ بہت مزے دار ہوتی ہے اور اس کا اثر دیر تک رہتا ہے‘ میں کافی چھوڑ چکا ہوں لیکن اس کے باوجود دن میں دو بار اسے انجوائے کرتا تھا‘ کافی لاتے میکاتو‘ جھیل کا کنارہ اور شام کا وقت یہ تمام عناصر مل کر جنت بن جاتے تھے‘ میں ایک دن سردار صاحب کے گھر بھی گیا‘ ان کا گائوں پہاڑ کی اترائیوں پر انگوروں کے باغات کے درمیان تھا‘ ان کے ٹیرس سے جھیل جنیوا بھی نظر آتی تھی اور مائونٹ بلینک بھی‘ دنیا کا سب سے مہنگا سکول بھی سردار جی کے ٹائون میں ہے‘ یہ انسٹی ٹیوٹ آف لاروزے کہلاتا ہے‘ 1833ء میں چودھویں صدی کے تعلیمی ادارے کا نام بدل کر بنایا گیا‘ بورڈنگ سکول ہے جس کی کم از کم سالانہ فیس چار کروڑ روپے ہے‘ یہ سکول گرمیوں میں رول میں چلتا ہے اور سردیوں میں جی سٹاڈ میں شفٹ ہو جاتا ہے‘ سکول کا کیمپس سردار صاحب کے ٹیرس سے نظر آتا تھا‘ سردار صاحب دل چسپ انسان ہیں‘ یہ شہزاد صاحب کی دریافت ہیں‘ شہزاد صاحب جنیوا کے ساتھ فرنے والٹیئر میں راجپوت کے نام سے شان دار ریستوران چلا رہے ہیں‘ جنیوا کے نوے فیصد لوگ راجپوت سے واقف ہیں‘ میں چھ برس قبل شہزاد صاحب سے حادثاتی طور پر متعارف ہوا اور ہم دوست بن گئے‘ سردار صاحب اور ان کی بیگم رعنا ان کے دوست ہیں‘ ان کے توسط سے ان لوگوں سے ملاقات ہوئی اور میں دیر تک سردار فیملی کی کمپنی انجوائے کرتا رہا‘ ہم ایک دن کے لیے انیسی اور شامنئی چلے گئے‘ یہ دونوں ٹائونز خوب صورت اور قابل دید ہیں‘
انیسی کی پرانی پتھریلی گلیوں میں ہزار سال کی تاریخ رکی ہوئی تھی‘ شہر کے قدیم حصے میں نہریں ہیں اور ان میں کشتیاں چلتی ہیں‘ فرنچ لوگ اسے منی وینس کہتے ہیں‘ اس کا کورڈ بازار اور قدیم کھانے دونوں ناقابل فراموش ہیں‘ انیسی کا چرچ بلندی پر ہے اور وہاں سے پورا شہر دکھائی دیتا ہے‘ ہم منگل کے دن وہاں گئے تھے‘ اس دن چرچ بند ہوتا ہے لہٰذا ہم چرچ نہیں دیکھ سکے‘ جھیل میں فیری چلتی ہے‘ یہ گھنٹہ بھر میں پوری جھیل دکھاتی ہے جب کہ نہروں میں چھ چھ مسافروں کی چھوٹی کشتیاں چلتی ہیں‘ شہر کی فضا میں رومان کے ساتھ ساتھ کھلا پن تھا‘ ہم سہ پہر تک اسے انجوائے کرتے رہے‘ ہماری اگلی منزل شامنئی تھا‘ انیسی سے شامنئی 40 منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ راستہ بہت خوب صورت ہے‘ دونوں طرف سرسبز پہاڑ ہیں‘ ہم شامنئی پہنچے تو چیئرلفٹ بند ہو چکی تھی‘ آخری لفٹ پانچ بجے واپس آتی ہے لہٰذا ساڑھے تین بجے لفٹس بند کر دی جاتی ہیں‘ ہم بدقسمتی سے لفٹ نہیں لے سکے‘ اس دن مائونٹ بلینک کا درجہ حرارت صفر ڈگری تھا اور لوگ بھاری جیکٹس پہن کر اوپر جا رہے تھے‘ ہم وہاں سے ٹائون میں چلے گئے‘ ٹائون بہت خوب صورت اور صاف ستھرا ہے‘ چاروں سائیڈز پر سبز پہاڑ ہیں اور پہاڑوں کے درمیان فیری ٹیل جیسا ٹائون ہے‘ بے شمار ہوٹل‘ ریستوران‘ کافی شاپس اور بارز ہیں‘ درمیان میں شوریدہ سردریا بہتا ہے‘ لوگ پلوں پرکھڑے ہو کر تصویریں بناتے ہیں‘ شامنئی کا میکڈونلڈ بالکل منفرد ہے‘ اس کا انٹیریئر لکڑی کا ہے اور قدیم محسوس ہوتا ہے‘ میں نے یہ انٹیریئر پہلی مرتبہ دیکھا‘ سوئٹزر لینڈ بہت مہنگا ہے‘ شامنئی کیوں کہ سوئس بارڈر کے ساتھ ہے لہٰذا یہ بھی بہت مہنگا ہے‘ بالخصوص کھانا‘ کافی اور جوس بہت مہنگے ہیں‘ لفٹ کے ٹکٹ بھی مہنگے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ شہر دیکھنے لائق ہے۔
ہم اس شام تھکے ہارے واپس آئے‘ اگلا دن ہم نے لیک جنیوا کے ساتھ واک کر کے اور گھاس پر لیٹ کر گزار دیا‘ میں کام کا عادی ہوں‘ پچھلے 40برسوں سے روزانہ 16 سے 18 گھنٹے کام کررہا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے توانائی سے نواز رکھا ہے‘ میں کام سے تھکتا نہیں ہوں‘ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اس سفر کے دوران کام نہیں کیا‘ کالم بھی نہیں لکھے اور دفتر سے بھی رابطہ نہیں رکھا‘ میرے پرسنل سیشنز بھی تھے‘ وہ بھی نہیں کیے‘ وی لاگ بھی نہ ہونے کے برابر تھے چناں چہ زندگی میں پہلی مرتبہ مکمل ہڈحرامی انجوائے کی‘ آپ یقین کریں بہت مزہ آیا اور اس سے یہ آگہی بھی ہوئی وہ لوگ جو پوری زندگی ہڈ حرامی میں گزار دیتے ہیں وہ کتنے مزے میں رہتے ہیں‘ لیک جنیوا کے ساتھ لیٹے لیٹے میں نے خواہش کی اگر اللہ تعالیٰ مجھے نئی زندگی دے تو میں وہ تنکا توڑے بغیر گزار دوں گا ‘ مکمل ہڈ حرام ثابت ہوں گا۔