وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی کے بارڈر پر ہے‘ ڈوزل ڈرف(Dusseldrof) وہاں سے آدھ گھنٹہ جب کہ کولن ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے‘ ہم پیرس سے ایک دن کے لیے وین لو چلے گئے‘ قصبہ بہت کھلا ڈھلا تھا‘ دور دور تک کھیت اور باغ تھے‘ دائیں بائیں دیہات ہیں اور ان سب کو دریائے ماس (Maas) اور نہریں آپس میں ملاتی ہیں‘ زیادہ تر لوگ سائیکل چلاتے ہیں‘ سڑک کے ساتھ ساتھ سائیکل ٹریک تھے اور اس پر ہر وقت کوئی نہ کوئی دوڑ رہا ہوتا تھا‘ نیدر لینڈ میں سائیکل ہر شخص کی سواری ہے‘ اس کی کل آبادی 18 ملین ہے جب کہ سائیکلز 23ملین ہیں گویا سائیکلوں کی آبادی انسانوں کی آبادی سے زیادہ ہے‘ سائیکل مہنگے بھی ہیں‘ دس دس ہزار یوروز کے سائیکل ملتے ہیں‘ الیکٹرک سائیکل بھی عام ہیں‘ یہ عام سائیکلوں کی طرح ہوتے ہیں‘ سوار کو توازن برقرار رکھنے کے لیے پیڈل چلانے پڑتے ہیں تاہم اس کا زور کم لگتا ہے کیوں کہ سائیکل میں خفیہ موٹر ہوتی ہے جو اسے چلاتی رہتی ہے‘ قصبے کے اندر ایک ٹھہرائو اور روحانی سکون تھا‘ محلے دور دور تھے اور ان میں کسی قسم کا رش نہیں تھا‘ کھیت اور سبزہ زیادہ تھا‘ جگہ جگہ گلاس ہائوس تھے جن میں سٹرابریز اگتی اور بکتی تھیں‘
دیہات میں گوالوں کے ڈیرے تھے‘ دودھ خالص اور خوشبو دار تھا‘ نہر کے ساتھ ساتھ سائیکل اور پیدل ٹریک تھا جو ٹائون کو مختلف دیہات سے جوڑتا تھا‘ دس کلو میٹر کے فاصلے پر ایرسن (Arcen) گائوں تھا‘ ایرسن کا سنٹر قدیم اور چرچ اور مکانات پرانے تھے‘ ان میں اب ریستوران‘ کافی شاپس اور بارز کھل چکے تھے‘ اس گائوں میں رش تھا بالخصوص نہر کے کنارے آباد ریستوران اور کافی شاپس میں بہت لوگ تھے‘ ایرسن کی آئس کریم جرمنی تک مشہور ہے لہٰذا روزانہ سیکڑوں جرمن آئس کریم کے لیے اس ٹائون میں آتے ہیں‘ ہم بھی وہاں گئے اور ہوم میڈ آئس کریم انجوائے کی‘ یہ دکان 45سال قبل کھلی اور اس نے آہستہ آہستہ آئس کریم کی مارکیٹ ہاتھ میں لے لی‘ اس کے ٹیرس سے نہر اور نہر کی دوسری سائیڈ پر موجود گائوں نظر آتے تھے‘ بالخصوص شام کا وقت بہت پرسکون اور خوب صورت تھا‘ نہر کے دونوں سروں کو آپس میں جوڑنے کے لیے فیری چلتی تھی جس میں لوگ سائیکل اور گاڑیاں بھی دوسری طرف لے جاتے تھے‘ دوسری طرف کے دیہات کے چرچز کے کلس اس سائیڈ سے نظر آرہے تھے اور وہ گھنے جنگلوں اور سرسبز کھیتوں کے درمیان چمکتے ہوئے بھلے محسوس ہوتے تھے‘ ایرسن کے پرانے قلعے کے آثار ابھی باقی ہیں‘ بادشاہ جس جگہ دشمنوں اور مجرموں کے سر قلم کرتا تھا وہ جگہ بھی موجود تھی‘ ٹائون کی پرانی گلیوں‘ جولاہوں کے صدیوں پرانے آرٹ کے نمونوں اورقدیم چرچ کی گھنٹوں میں گزرے وقتوں کی خوشبو تھی اور میں آدھا دن اس خوشبو میں مدہوش پھرتا رہا۔
وین لو میں صرف دو پاکستانی خاندان ہیں‘ گجرات کا نوجوان عدیل چودھری اور لالہ موسیٰ کا ایک پرانا خاندان اور بس‘ میری عدیل چودھری سے ٹیلی فون پر بات ہوتی رہتی تھی‘یہ مجھے بڑا بھائی سمجھتا ہے‘ اس کی کہانی بہت دل چسپ ہے‘ یہ گجرات سے دھکے کھاتا کھاتا سپین پہنچا‘ محنت مزدوری کرتا رہا‘ ہوٹل کی نوکری کے دوران اس کی ملاقات نیدر لینڈ کی لڑکی سے ہوئی‘ دونوں نے شادی کرلی اور پھر یہ اپنی بیگم کے ساتھ وین لو شفٹ ہو گیا‘ اب ماشاء اللہ اس کے تین بیٹے ہیں‘ یہ انہیں پنجابی سکھاتا رہتا ہے‘ بچے پنجابی بول نہیں سکتے لیکن سمجھ لیتے ہیں‘ بڑا بیٹا چھ سال کا ہے اور بہت سمارٹ اور مضبوط کاٹھی کا ہے‘ دوسرا چار اور تیسرا دو سال کا ہے‘ یہ تینوں چاچو کہہ کر میرے ساتھ لپٹ گئے اور پھر میں دیر تک ان کے ساتھ فٹ بال کھیلتا رہا‘ عدیل کی بیگم دیسی کھانا پکانا جانتی ہے‘ اس نے بڑی محبت سے کھانا بنایا اور کھلایا‘ یہ بچے بھی پالتی ہے‘ اٹارنی کی نوکری بھی کرتی ہے اور گھر کی صفائی بھی کرتی ہے‘ ہم لوگ اس کی مشکل زندگی اور جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ ہم دوسری فیملی کے صرف ایک نوجوان سے ملاقات کر سکے‘ یہ لوگ تین نسلوں سے وین لو میں مقیم ہیں‘ ان کا دوسرے پاکستانیوں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ بہرحال وین لو جیسے دور دراز اور غیر مصروف علاقے میں پاکستانیوں کا ملنا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا مزیدار تجربہ تھا بالخصوص عدیل بہت مخلص‘ ہمدرد اور جذباتی نوجوان ہے اور میں نے اس کی کمپنی خوب انجوائے کی۔
ہم نے وین لو سے ایمسٹرڈیم جانا تھا لیکن ہم راستے میں جی تھرون (Giethroon) کے مشہور سیاحتی قصبے میں رک گئے‘ یہ نیدر لینڈ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور منی وینس کہلاتا ہے‘ جی ڈچ زبان میں ژی کی آواز نکالتا ہے لہٰذا یہ ژی تھرون بولا جاتا ہے‘ آپ نے اسے یوٹیوب پر ضرور دیکھا ہو گا‘ یہ دنیا کی دس بڑی ٹور ازم وش لسٹ میں شامل ہے‘ اس کی کہانی 1230ء میں شروع ہوئی ‘ اس علاقے میں اس زمانے میں پیٹ یعنی نباتاتی کوئلہ نکلتا تھا‘ تاجروں نے 13ویں صدی میں یہ کوئلہ نکالنا شروع کیا جس کے بعد علاقے میں کھائیاں بن گئیں‘ بارشیں ہوئیں تو کھائیاں پانی سے بھر گئیں اور آہستہ آہستہ نہروں میں تبدیل ہونے لگیں‘ کوئلہ اس زمانے میں بھی مہنگا تھا چناں چہ تاجروں نے علاقے میں گھر اور ریسٹ ہائوس بنا لیے‘ ہوٹل‘ ریستوران اور شراب خانے بھی بن گئے یوں یہ ویران علاقہ قصبے میں تبدیل ہو گیا‘ کوئلہ ختم ہوا تو لوگوں نے کھائیوں میں رکا پانی نکالنے کے لیے ان کی دیواریں توڑ دیں اور یوں قصبے کے اندر درجنوں چھوٹی بڑی نہریں بن گئیں‘ اس زمانے میں کسی نے یہ نہیں سوچا ہوگا یہ نہریں دو صدیوں میں دنیا کی ٹاپ ٹورازم منزل بن جائیں گی‘ بہرحال قصہ مختصر ژی تھرون نے کوئلے کی کانوں سے جنم لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ جنت جیسا بن گیا۔
ہم ٹائون میں پہنچے‘ گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور بڑی نہر کے پہلے سٹاپ پر آ گئے‘ وہاں سے کشتیاں کرائے پر ملتی تھیں‘ تین قسم کی کشتیاں تھیں‘ موٹر بوٹس جن میں دو سے چار لوگ بیٹھ سکتے تھے‘ الیکٹرک بوٹ جس میں دس لوگ بیٹھ سکتے تھے اور فیری بوٹ جس میں تیس چالیس سیاح بیٹھ سکتے تھے‘ فیری بوٹ کا کرایہ کم تھا اور کپتان ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کر رہا تھا لیکن ہمیں وہ رش کی وجہ سے پسند نہ آئی لہٰذا ہم نے الیکٹرک بوٹ لے لی‘ یہ ہم نے خود چلانی تھی اور اس کا وقت دوگھنٹے تھا‘ عدیل چودھری کا دعویٰ تھا یہ کشتیوں کا ٹھیک ٹھاک ماہر ہے‘ ہم اس کی باتوں میں آ گئے اور اس نے بعدازاں کشتی رانی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ہمارے سارے طبق روشن ہو گئے تاہم یہ آخر تک ڈٹے رہے اور کشتی چلانا بھی سیکھ گئے‘ ان کا ڈچ بیٹا بھی ساتھ تھا‘ یہ دونوں باپ بیٹا سارا راستہ سٹیئرنگ کے لیے آپس میں لڑتے رہے اور ہم انہیں دیکھ دیکھ کر ہنستے رہے‘ ژی تھرون میں نہروں کا جال ہے‘ یہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں‘ ان کے دائیں بائیں لکڑی کے ہٹس اور گھر ہیں‘ گھر بہت صاف ستھرے اور فیری ٹیل جیسے تھے‘ ہر گھر کے سامنے لان تھا اور اس میں پھول اگے ہوئے تھے‘ ایک سائیڈ کے لوگ دوسری سائیڈ پر آنے جانے کے لیے پل استعمال کرتے ہیں اور یہ سارے پل لوگوں نے خود بنائے ہیں‘ نہریں کیوں کہ زیادہ گہری اور چوڑی نہیں ہیں چناں چہ آنے جانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی‘ نہروں کے ساتھ ساتھ ہوٹلز‘ ریستوران‘ بارز اور کافی شاپس ہیں‘ سووینئر شاپس بھی ہیں اور ان میں ٹھیک ٹھاک رش بھی تھا‘ نہروں کے ساتھ واک اور سائیکل کے ٹریکس تھے‘
لوگ ان پر واک کر رہے تھے اور سائیکل چلا رہے تھے‘ دس پندرہ میٹر بعد کوئی نہ کوئی پل آ جاتا تھا اور لوگ اس پرکھڑے ہو کر گزرتی کشتیوں کی طرف ہاتھ ہلاتے تھے‘ نہروں کی چوڑائی کم تھی اور کشتیاں زیادہ تھیں لہٰذا یہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں اور پھنس بھی جاتی تھیں جس کے بعد ٹریفک رواں کرنے کے لیے کشتیاں دائیں بائیں کی جاتی تھیں‘ قصبے میں چھوٹا سا میوزیم تھا جس میں گائوں کی تاریخ‘ شروع کے گھر اور لوگوں کی طرز زندگی کے ثبوت اور تصویں تھیں‘ گھر بہت خوب صورت اور اندر سے آرام دہ تھے‘ ہر گھرمیں درخت اور بیلیں تھیں‘ چھٹیوں میں قصبے میں اڑھائی تین لاکھ لوگ آ جاتے ہیں جس کے بعد نہروںمیں ٹریفک جام ہو جاتی ہے‘ شہر کی تمام نہریں (یہ انہیں سٹریٹس کہتے ہیں) ایک بڑی جھیل میں کھلتی ہیں‘ ساری کشتیاں وہاں پہنچتی ہیں اور وہاں سے گھوم کر واپس مین سٹریٹ میں آتی ہیں اور آخر میں پہلے سٹاپ پر پہنچ جاتی ہیں‘ یہ دو گھنٹے کا ٹور ہے اور آپ یقین کریں وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا‘ ہم نے بھی کشتی میں پورے ٹائون کا چکر لگایا اور ہمیں وقت گزرنے کا پتا نہیں چلا‘ میں نے کشتی واپس کرنے کے بعد پیدل ٹائون کا چکر لگایا‘ وہ بھی مزے دار اور دل چسپ تجربہ تھا‘ نہروں کے اوپر پل تھے اور ان پلوں کے ذریعے میں کبھی دائیں آ جاتا تھا اور کبھی بائیں اور ہمارے نیچے نہریں بہہ رہی تھیں اور ان میں کشتیاں چل رہی تھیں اور لوگ ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے‘ وہ منظر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہو گیا‘
یہ ٹائون کوئی بڑی گیم نہیں ‘ سات سو سال پہلے لوگوں نے یہاں سے کوئلہ نکالا‘ کھائیاں بن گئیں‘ ان میں پانی بھر گیا اور پھر لوگوں نے تین سے چھ فٹ گہری نہریں کھود کر ان کھائیوں کو آپس میں ملا دیا اور یوں ژی تھرون بن گیا اور دنیا بھر کے سیاح آنے لگے‘ یہ پانی آگے چل کر دریا سے مل جاتا ہے اور پانی پانی میں مل کر تازہ ہو جاتا ہے‘ اس میں بو نہیں آتی‘ اب سوال پھر وہی ہے اگر نیدر لینڈ کے چند دیہاتی یہ کمال کر سکتے ہیں توپھر ہم پاکستان میں یہ کیوں نہیں کر سکتے‘ پاکستان میں بے شمار نہریں اور دریا ہیں‘ حکومت کسی پرائیویٹ کمپنی کو موقع دے‘ یہ بڑی نہر کو چھوٹی چھوٹی نہروں میں تقسیم کر کے اس کے اردگرد چھوٹا سا ٹائون بنا دے اور یوں تفریح اور سیاحت کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘یہ کام شمالی علاقہ جات میں بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے‘ کاش کوئی شخص یا کمپنی یہ بیڑا اٹھا لے‘ اس سے روزگار میں بھی اضافہ ہو گا اور عوام کو بھی گھومنے پھرنے اور خوش ہونے کا موقع ملے گا۔