’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک مانگ رہے ہو‘ تمہیں شرم آنی چاہیے‘‘ یہ بظاہر دو فقرے تھے مگر انہوں نے سڑک پر کھڑے بھکاری کا مقدر بدل دیا اور یہ بھکاری بھی کوئی عام بھکاری نہیں تھا‘ یہ ٹیڈولیم (Ted William) تھا‘ دی گولڈن وائس ٹیڈ ولیم‘ اب سوال یہ ہے ٹیڈولیم کون ہے؟ یہ ایک عام امریکی تھا‘ نیویارک کے علاقے بروکلین میں 1957ء میں پیدا ہوا‘ ہاف وائیٹ تھا‘گرتے پڑتے تعلیم حاصل کی‘ تین سال فوج میں رہا‘وہاں سے نکلا تو وائس ایکٹنگ سکول میں داخلہ لے لیا‘ قدرت نے اسے بہت اچھی آواز دے رکھی تھی اور سکول نے اسے مزید نکھار دیا‘ وہ ریڈیو کامانہ تھا‘ آواز کی دنیا میں کام کرنے والے لوگ اس دور کے ہیرو ہوتے تھے‘ اس کی آواز کا جادو بہت جلد مائیکرو فون تک پہنچ گیا اور اسے 1971ء میں کولمبس کے مشہور ریڈیو’’ ڈبلیو وی کے او‘‘ میں رات کی شفٹ میں کام مل گیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگیا‘ عین جوانی میں مشہور ہونا اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے لیکن یہ ساتھ ساتھ امتحان بھی ہوتا ہے اور بہت کم لوگ اس امتحان پر پورے اترتے ہیں‘ زیادہ تر لوگ اس کرم کو سنبھال نہیں پاتے‘ ٹیڈ ولیم کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ وہ شروع میں شراب نوشی کی لت کا شکار ہوا اور پھر دوسرے نشوں کا عادی ہوتا چلا گیا اور یہ لکھی پڑھی بات ہے نشہ اور کام اور منشیات اور نارمل زندگی دونوں اکٹھے نہیںچل سکتے چناںچہ ایک رات جب وہ نشے میں دھت ہو کر ریڈیو سٹیشن پہنچاتو اسے نوکری سے جواب مل گیا‘
وہ بے روزگار ہو گیا‘ اس وقت اس کے پاس تھوڑی بہت رقم تھی‘ وہ بے روزگاری کی ابتدا میں اس سے کام چلاتا رہا لیکن انسان کے پاس اگر قارون کا خزانہ بھی ہو تو وہ بالآخر ختم ہو جاتا ہے جب کہ ٹیڈ ولیم کے پاس تھوڑے سے پیسے تھے‘ وہ بہت جلد خرچ ہوگئے جس کے بعد مالک مکان نے اسے گھر سے نکال دیا اور وہ بینک کا مقروض بھی ہو گیا‘ دوست احباب اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور یوں وہ سڑک پر آ گیا‘ اب ایک طرف بے روزگاری تھی اور دوسری طرف نشے کی نہ ختم ہونے والی طلب تھی‘ یہ دونوں مجبوریاں اسے بہت جلد جرائم کی دنیا میں لے گئیں‘ اس نے چھوٹی موٹی چوری سے آغاز کیا اور بہت جلد ڈکیتیوں تک پہنچ گیا‘ وہ سات مرتبہ گرفتار ہوا اور سات مرتبہ ہی اسے سزا ہو ئی یہاں تک کہ یہ بھیک پر آ گیا‘ وہ فٹ پاتھ پر رہتا تھا‘ وہیں سوتا تھا‘ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا تھا اور مانگ تانگ کر نشے کی ضرورت پوری کر لیتا تھا‘ لوگ اسے اپنا بچا کھچا کھانا بھی دے جاتے تھے اور یوں زندگی خوف ناک انجام کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن پھر 2010ء دسمبر کے آخر ہفتے میں اس سے ڈورل چینووتھ (Doral Chenoweth) ٹکرا گیا۔
ڈورل ویڈیو گرافر تھا‘ ان دنوں روایتی صحافت ویب سائیٹس پر شفٹ ہو رہی تھی‘ سوشل میڈیا نے آہستہ آہستہ آنکھ کھولنا شروع کی تھی‘ ڈورل اوہایو سٹیٹ کے اخبار کولمبس ڈسپیچ کے لیے ویڈیو گرافی کرتا تھا‘ اس کی خبریں اخبار کی ویب سائیٹ پر پرنٹ بھی ہوتی تھیں اور ان کی آڈیو اور ویڈیو بھی آتی تھی‘ ڈورل کو ٹیڈولیم فٹ پاتھ پر ٹریفک سگنل پر بھیک مانگتاہوا ملا‘ وہ اسے نہیں جانتا تھا لیکن اس کی آواز میں کوئی ایسی کشش تھی جس نے اس کے قدم روک دیے اور وہ اس سے بات چیت پر مجبور ہو گیا‘ وہ سوال کرتا رہا اور مقدر اور حالات کا مارا ٹیڈ ولیم جواب دیتا رہا‘ اس کی کہانی نے ڈورل کا دل چیر کر رکھ دیا‘ اس نے کیمرہ نکالا اور اسے ریکارڈکرنا شروع کر دیا‘ وہ کہانی ہول ناک تھی‘ کس طرح ایک ابھرتا ہوا ستارہ ٹوٹا اور ٹوٹ کر آسمان پر بکھر گیا‘ یہ کہانی واقعی دل دوز تھی‘ ڈورل نے آخر میں ٹیڈ ولیم کی آواز کا جادو بھی ریکارڈ کر لیا‘ انٹرویو کی ریکارڈنگ ختم ہوئی تو اس نے اس سے کہا’’ تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر کھڑے ہو کر بھیک مانگ رہے ہو‘ تمہیں شرم آنی چاہیے‘‘ یہ الفاظ ٹیڈولیم کے دل پر لگے اور اس نے فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ کر لیا‘ ڈورل نے اس کا انٹرویو اور کہانی تین جنوری 2011ء کو اخبار کی ویب سائیٹ پر ’’اپ لوڈ‘‘ کر دی‘ سٹوری نے پورے امریکا میں تہلکہ مچا دیا اور ٹیڈ ولیم کو دھڑا دھڑ انٹرویوز اور نوکریاںملنے لگیں یوں یہ آواز کی دنیا میں واپس آ گیا‘ کیریئر کے دوسرے آغاز کے دوران بھی یہ کئی بار نشے کی طرف واپس آگیا لیکن کوئی نہ کوئی غیبی ہاتھ آیا اور اسے اس چھوٹے سے گڑھے سے نکال لیا یہاں تک کہ اسے گولڈن وائس کا خطاب مل گیا‘ یہ اب بھی حیات ہے اور امریکا میں گولڈن وائس شو کے نام سے شو کر رہا ہے‘ نشے نے اس کا جسم کھوکھلا کر دیا تھا‘ یہ دیکھنے میں ڈھانچہ نظر آتا ہے‘ دانت منہ سے باہر ہیں‘ یہ اس کی بدصورتی میں اضافہ کر دیتے ہیں‘اسے چلنے پھرنے میں دقت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی آواز میں جادو رکھا ہے‘ اس نے بے شمار فلموں اور اشتہارات کو اپنی آواز کا تحفہ دیا‘ بے شمار کرداروں کے لیے ڈبنگ کی‘ کروڑوں ڈالر کمائے اور یہ اب ایک خوش حال اور کام یاب زندگی گزار رہا ہے لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ یہ شخص آج سے ٹھیک 14 سال قبل ٹریفک سگنل پر بھیک مانگ رہا تھا‘ اس کے تن پر جو کپڑے تھے وہ بھی اس نے کچرا گھر سے اٹھائے تھے‘ اللہ کی بنائی اس زمین پر اس کے لیے کوئی چھت‘ کوئی جائے امان نہیں تھی لیکن پھر کیا معجزہ ہوا کہ اس کی ساری زندگی بدل گئی‘ یہ گلیوں اور فٹ پاتھوں سے سٹیج پر آ گیا‘آخر ایسا کیا ہوا؟۔
میں اس معجزے کو ریکوڈک کہتا ہوں‘ ٹیڈ ولیم کی زندگی میں ڈورل آیا اور اس نے اسے یاد دلا دیا تم ریکوڈک ہو‘ سونے کی کان لیکن تم فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر بھیک مانگ رہے ہو‘ اس فقرے نے اس کے اندر چھپاریکوڈک جگا دیا اور یہ فٹ پاتھ سے کام یابی کے سٹیج پر آ گیا۔آپ یقینا ریکوڈک کی اصطلاح پر حیران ہوں گے اور ٹیڈ ولیم اور ریکوڈک کا آپس کا جوڑ تلاش کر رہے ہوںگے‘ آپ کی حیرت بجا لیکن یہ معاملہ زیادہ مشکل نہیں‘ ریکوڈک بلوچستان کا علاقہ ہے یہاں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں‘ یہ ذخائر 78 برس سے پاکستان کے پاس ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ٹیڈولیم کی طرح ٹریفک سگنل پر بھیک مانگ رہے ہیں اور یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ہم 25 کروڑ پاکستانی بھی ریکوڈک ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی بے انتہا خوبیاں دے رکھی ہیں‘ ہم بھی سر کے بالوں سے پائوں کے ناخن تک ریکوڈک ہیں لیکن اس کے باوجود بے روزگار‘ ناکام اور مایوس پھر رہے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے کبھی پاکستان کی طرح اپنے ریکوڈک پر توجہ ہی نہیں دی لہٰذا ہم بھکاری بن کر کھڑے ہیں‘ آپ ایک بار پھر ٹیڈ ولیم کی کہانی کی طرف واپس آئیں‘ اس کے پاس کیا تھا؟ آواز‘ اس نے اس سے شہرت بھی کمائی‘پیسہ بھی اور آرام دہ زندگی بھی لیکن پھریہ آواز نشے میں ڈوب گئی اور یہ فٹ پاتھ پر آ گیا‘ 2010ء میں ڈورل نے اسے ایک بار پھر یاد دلا دیا قدرت نے تمہیں ریکوڈک بنایا ہے‘ تم اپنے اس خزانے کو استعمال کیوں نہیں کرتے؟ یہ بات اس کے پلے پڑ گئی‘ یہ اپنے خزانے کی طرف واپس آیا اور یہ دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا بس کہانی اتنی تھی اور یہ کہانی صرف ٹیڈ ولیم تک محدود نہیں‘ یہ ہم سب کی کہانی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے آج کوئی ایسا انسان پیدا نہیں کیا جس کو اس نے اشرف المخلوقات کی صفات نہ دی ہوں‘
جسے اس نے حیران کن خوبیاں نہ دی ہوں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ ان خوبیوں کو تلاش کیے بغیر‘ ان سے فائدہ اٹھائے بغیر پوری زندگی بھیک مانگ کر ضائع کر دیتے ہیں‘ یہ پوری زندگی فٹ پاتھ پر کھڑے رہتے ہیں‘ میں 25سال سے ٹریننگ اور سیلف ہیلپ کا کام کر رہا ہوں‘ مجھ سے روزانہ درجنوں لوگ رابطہ کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں ہم کیا کریں‘ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی‘ بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جو ٹیڈ ولیم کی طرح کام یاب ہو کر دوبارہ ناکام ہو جاتے ہیں اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کسی مسیحا کا انتظار کرتے رہتے ہیں‘ میں ان سے الٹا دو سوال کرتا ہوں‘پہلا سوال‘ آپ خود کو ٹٹول کر بتائیں وہ کون سا کام ہے جو آپ آسانی سے کر سکتے ہیں‘ آپ یقین کریں زیادہ تر لوگوں نے کبھی اس نقطے پر غور ہی نہیں کیا‘ یہ تیس پینتیس برس کی عمر میں بھی اپنے ریکوڈک سے واقف نہیں ہوتے‘ دوسرا سوال‘ میں لوگوں سے پوچھتا ہوں آپ نے پچھلی مرتبہ کیسے پیسہ کمایا تھا یا آپ کیسے کام یاب ہوئے تھے؟ یہ اپنی پوری کہانی سناتے ہیں‘ میں یہ سن کر عرض کرتا ہوں تم جس طریقے‘ فن یا ذریعے سے پچھلی مرتبہ کام یاب یا امیر ہوئے تھے تم اس مرتبہ بھی اسی سے ہو گے‘ تمہاری غلطی یا خامی یہ ہے تم جس گھوڑے پر بیٹھ کر یہاں تک آئے تم نے اسے مار دیا یا بھگا دیا‘
اسے واپس لائو‘اپنے کام کی طرف واپس جائو‘ تم دوبارہ کام یاب ہو جائوگے‘ دوبارہ امیر ہو جائوگے‘ آپ یقین کریں جو لوگ میرے ان دونوں سوالوں کا جواب تلاش کر لیتے ہیں وہ ٹیڈ ولیم کی طرح دوبارہ کام یاب ہو جاتے ہیں یا اپنے پرانے بزنس‘ جاب یا کمپنی میں جا کر اچھی اور کام یاب زندگی شروع کر دیتے ہیں اور جنہیں یہ سوال سمجھ نہیں آتے وہ اسی طرح فٹ پاتھ پر کھڑے رہ جاتے ہیں‘ آپ ٹیڈ ولیم کی کہانی دوبارہ پڑھیے‘ آپ کو اس میں دو چیزیں ملیں گی‘ اللہ تعالیٰ نے اسے آواز کی دولت سے نواز رکھا تھا‘ اس نے اس نعمت سے کام یابی حاصل کر لی‘ اس نے پھر اس نعمت کا کفران کیا اور سڑک پر آ گیا اور پھر جب ڈورل نے اسے اس کا ریکوڈک یاد کرایا تو یہ واپس اپنے کام پر آ گیا‘ اس نے ریکوڈک کودوبارہ کھود لیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ایک بار پھر نواز دیا‘ آپ بھی اپنا ریکوڈک تلاش کریں اور اگر یہ ایک بار آپ کے ہاتھ سے کھسک چکا ہے تو آپ اسے دوبارہ تلاش کریں اور چپ چاپ اس کام‘ جاب اور ہنر کی طرف واپس چلے جائیں جہاں سے آپ کو جاگ لگی تھی‘ اللہ آپ پر دوبارہ کرم کرے گا۔