بدھ‬‮ ، 13 اگست‬‮ 2025 

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

datetime 14  اگست‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں رہتی ہیں‘ ان کا گھر پہاڑی پر ہے‘ سامنے وادی میں انگوروں کے باغ اور وائنریز ہیں‘ وہ گھر سڑک کا آخری مکان ہے‘ شیلا نے باہر آ کر ہمارا استقبال کیا‘ میں ان کا پہلا پاکستانی مہمان تھا‘ ان کی عمر 75 سال ہو چکی ہے‘ یہ علیل بھی ہیں اور نحیف بھی‘ شیلا نے بتایا‘ امریکا کا آشرم اجڑنے کے بعد ہم سب دربدر ہو گئے‘ میں اپنے امریکن خاوند سلور مین کے ساتھ جرمنی آ گئی‘ وہاں بھی مقدمے بن گئے‘ سلور مین کا انتقال ہوا تو میں نے گرو کے شاگرد جان شیفلر سے شادی کر لی‘ وہ بھی فوت ہو گیا‘ مجھے اس دوران جیل ہو گئی‘ رہائی کے بعد میں نے برنسٹل (Birnstiel) سے شادی کر لی‘ وہ سوئس تھا‘ میں اس کے ساتھ سوئٹزر لینڈ آ گئی‘ بدقسمتی سے برنسٹل بھی انتقال کر گیاجس کے بعد میں نے بھارت‘ امریکا اور یورپ میں سارے اثاثے بیچے اور یہاں دو نرسنگ ہومز بنا لیے اور اب میں ان بوڑھوں اور معذوروں کی خدمت کرتی ہوں جنہیں ان کے اپنے بھی چھوڑ جاتے ہیں‘ شیلا نے اس کے بعد لطیف بھائی اور مجھے اپنے نرسنگ ہوم کا دورہ کرایا‘ اس کے دو نرسنگ ہومز میں 27 مریض ہیں‘ تمام مریض ذہنی امراض کا شکار ہیں اور انہیں اپنی سدھ بدھ نہیں تھی‘ شیلا اپنا نام بدل کر ماں آنند شیلا رکھ چکی ہیں لہٰذا زیادہ تر مریض انہیں ماں کہتے ہیں‘ وہ ایک اوپن ڈور نرسنگ ہوم تھا‘ مریضوں کے بیڈز کوریڈورز میں لگے تھے‘ کمروں کے دروازے بھی نہیں ہیں تاکہ مریض ایک دوسرے کو دیکھ سکیں‘ شیلا کے پاس 25 لوگوں کا سٹاف ہے‘ کچن اوپن اور بہت خوب صورت ہے‘ نرسنگ ہوم سے پوری وادی نظر آتی ہے‘ مریض اور سٹاف ٹیرس پر کھانا کھاتے ہیں‘ لان سے پھل بھی توڑتے ہیں۔

عمارت کی بیک سائیڈ پر شیشے کا ٹیرس تھا‘ چھت کھل جاتی تھی اور بند بھی ہو جاتی تھی‘ وہاں لمبی ڈائننگ ٹیبل تھی‘ شیلا نے ہمیں اس پر بٹھایا اور خود سامنے بیٹھ گئی‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا یہ مریض متشدد ہو جاتے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ہاں کبھی کبھار لیکن ہمارے پاس ڈاکٹرز کا پینل ہے‘ ہم انہیں کال کر لیتے ہیں یا ایمبولینس میں انہیں ہسپتال منتقل کر دیتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ یہاں ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں؟‘‘ انہوں نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ سب ٹھیک ہیں‘ انسان کو بنیادی طور پر محبت چاہیے‘ محبت دنیا کا سب سے بڑا علاج ہے‘ ہم ان لوگوں کو وہ توجہ اور محبت دیتے ہیں جو انہیں ان کے اپنوں سے بھی نہیں ملتی لہٰذا یہ لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے‘ ہمارے مریض اپنے گھروں کی بجائے یہاں مرنا پسند کرتے ہیں‘ میرے یہ سپیشل مہمان ہاتھوں میں ہاتھ رکھ کرچپ چاپ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں‘ وہ لمحہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے کیوں کہ ایک ایسا زندہ شخص جس کے ساتھ ہم نے برسوں گزارے ہوں‘ وہ جب اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دے کر کہتا ہے ماں میں جا رہا ہوں‘ میرا ہاتھ زور سے پکڑ لو تو آپ خود سوچیں آپ پر کیا گزرے گی؟‘‘ ان کا کہنا تھا ’’ میں مرتے ہوئے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ جاتی ہوں اور پھر آہستہ آہستہ اس ہاتھ کی گرفت اور حرارت مدہم پڑ جاتی ہے اور اس کے بعد اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’نرسنگ ہوم کا آئیڈیا آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’میں اپنے والدین کی خدمت نہیں کر سکی تھی‘ میرے والدین کو آپ جیسے لوگوں (صحافیوں) نے بڑی تکلیف دی‘

وہ بے چارے میرے بارے میں پڑھ پڑھ اور سن سن کر تکلیف میں رہے چناں چہ میں نے اپنی باقی زندگی ان لوگوں کے لیے وقف کر دی جنہیں کوئی سمجھنے اور دیکھنے کے لیے تیار نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے یہ کام کب شروع کیا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’میں نے 2000ء کے شروع میں اپنے گھر میں تین مریضوں کے ساتھ یہ شروع کیا ‘ حکومت مجھے اجازت نہیں دے رہی تھی‘ مجھے اجازت کے لیے عدالتوں میں دھکے کھانا پڑے لیکن بہرحال میں کام یاب ہو گئی اور اب حکومت ہمیں امداد بھی دیتی ہے اور ہم پر فخر بھی کرتی ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کے ساتھ اور کون کون ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’میں اور میری بہن نے اپنی زندگی ان کے لیے وقف کر رکھی ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ ان لوگوں کا علاج بھی کرتے ہیں‘‘ شیلا کے جواب نے مجھے حیران کر یا‘ ان کا کہنا تھا ’’محبت اور احساس سے بڑا کوئی ڈاکٹر‘ کوئی دوا نہیں ہوتی‘

یہ لوگ بھی انسان ہیں بس قدرت نے انہیں امتحان بنا کر ہمارے پاس بھجوا دیا‘ ان کے گرد موجود لوگ جب انہیں توجہ اور محبت نہیں دیتے تو یہ بیمار ہو جاتے ہیں لیکن یہ جب ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کے حصے کی محبت بھی انہیں دیتے ہیں اور یوں یہ ٹھیک ہو جاتے ہیں‘‘ وہ جب یہ بتا رہی تھیں تو ہماری میز پر بیٹھا بزرگ اٹھ کھڑا ہوا‘ وہ باہر سے چیری توڑ کر لایا تھا‘ ہم آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور وہ مزے سے چیری کھا رہا تھا‘ وہ اٹھا تو اس کا ٹروزر ذرا سا نیچے کھسک گیا‘ شیلا اس کی طرف مڑی اور جرمن زبان میں بڑے پیار سے کہا اپنا ٹروزر ٹھیک کرلو‘ اس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور فوراً اپنا پائجامہ اوپر کھسکا لیا‘ میرے سامنے ایک اور بزرگ بیٹھا تھا‘ اس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا‘ وہ کھانا نہیں کھا پا رہا تھا‘ شیلا کی ایک ورکر اسے بڑے پیار سے کھانا کھلا رہی تھی‘ اس کے منہ سے لعاب گر رہا تھا مگر وہ اس کے ہونٹ رومال سے صاف کر کے اسے کھلا رہی تھی‘وہ اس سے باتیں بھی کر رہی تھی‘ مجھے وہ منظر بہت اچھا لگا‘ میں نے شیلا سے پوچھا ’’کیا یہ مریض کبھی اپنے گھر جاتے ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ یہاں زیادہ مطمئن ہیں‘ یہ گھر جانے کی ضد نہیں کرتے ان کے عزیز رشتے دار بھی انہیں ہمارے حوالے کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے‘‘ میرا دل بوجھل ہو گیا۔

شیلا نے اس کے بعد ہمیں پورے سنٹر کا وزٹ کرایا‘ وہ اوپن ڈور بلڈنگ تھی‘ مختلف کمرے تھے جن میں میڈیکل بیڈ لگے تھے‘ دو بڑی وارڈز تھیں لیکن ان میں بھی دو چار سے زیادہ بیڈ نہیں تھے‘ شیلا کا کمرہ دوسری منزل پر تھا‘ ان کا کہنا تھا میرا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے‘ کوئی بھی مریض کسی بھی وقت آ کر میرے ساتھ ملاقات کر سکتا ہے‘ شیلا کے کمرے کی دیواوں پر ان کی اوشو کے ساتھ تصویریں لگی تھیں‘ ان کی والدہ اور والد کی تصویریں بھی پورے گھر کی دیواروں پر تھیں‘ ان کے والد بھی باریش تھے اور شکل سے گرو لگتے تھے‘ شیلا کا کہنا تھا یہ بھی سوامی تھے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’گرو نے آخر میں آپ کو ذمہ دار قرار دے کر پھنسا دیا تھا‘ وہ اگر چاہتے تو آپ جیل نہ جاتیں لیکن آپ ابھی تک ان سے عقیدت رکھتی ہیں‘‘ ان کا جواب تھا ’’مجھے گرو سے محبت تھی‘ میں صرف ان کی فین نہیں تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو اپنے ماضی پر شرمندگی ہے؟‘‘ شیلا نے ہنس کو جواب دیا ’’ماضی صرف ماضی ہوتا ہے‘ وہ گزر گیا‘ انسان کو اس کا غلام نہیں بننا چاہیے‘ میرے ساتھ کیا ہوا اور میں نے کیا کیا‘ کوئی فرق نہیں پڑتا‘ انسان کو آگے بڑھنا چاہیے اور میں بہت آگے آ گئی ہوں‘ وہ وقت بہت اچھا تھا لیکن وہ گزر گیا‘ اس کے بعد اس سے بھی اچھا وقت آیا اور اس کے بعد مزید اچھا آئے گا‘ میں اپنے ماضی سے بہت آگے آ گئی ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ مذہب پر یقین رکھتی ہیں؟‘‘ ان کا سیدھا سادا جواب تھا ’’بالکل نہیں‘ میں اب کسی مذہب کو نہیں مانتی‘ ہم انسانوں کے درمیان صرف ایک رشتہ ہونا چاہیے اور وہ ہے محبت اور خدمت‘‘ شیلا نے اس کے بعد ہمیں بڑا شان دار لنچ کرایا‘

وہ خود بھی ہمارے ساتھ سالمن فش کھا رہی تھیں‘ ان کی اسسٹنٹ میر جام(Mirjam)بھی ہمارے ساتھ تھی‘ یہ آسٹرین ہے اور 24 سال سے شیلا کے ساتھ کام کر رہی ہے‘ لکھاری اور فلنتھراپسٹ ہے‘ اس نے بتایا‘ میں جوانی میں شیلا کا مقدمہ دیکھنے عدالت گئی‘ اس خاتون نے جس بہادری سے ہر سوال کا جواب دیا اور اپنی ہر غلطی تسلیم کی اور سزا کے بعد جس تحمل کا مظاہرہ کیا اس نے میرا دل موہ لیا اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں اس کے ساتھ ہوں‘ میر جام نے سنٹر کے بارے میں بھی بتایا‘ کھانا کھاتے کھاتے اچانک شیلا کی طبیعت خراب ہو گئی‘ اس نے مجھ سے معذرت کی اور اندر چلی گئی‘ تھوڑی دیر بعد اس کی دوسری اسسٹنٹ آئی اور اس نے بتایا‘ شیلا کا بلڈ پریشر اچانک ڈراپ ہو گیا ہے‘ میں نے اسے لٹا دیا ہے‘ وہ شاید اب باہر نہ آ سکے‘ شیلا کے شیف نے اس دوران کافی کے مگ ہمارے سامنے رکھ دیے‘ ہم نے کافی پی‘میر جام کی گفتگو انجوائے کی اور واپسی کی اجازت طلب کر لی۔

ہم واپس آ گئے‘ آج اس ملاقات کو20 دن گزر چکے ہیں لیکن ذہن میں آج بھی اس ملاقات کا ذائقہ موجود ہے‘ شیلا کیا تھی‘ وہ کیا بنی اور آج وہ کیا ہے؟ یہ عجیب داستان ہے‘ کیا یہ ایک بری عورت تھی یا پھر یہ فرشتہ ہے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا تاہم یہ طے ہے اس عورت نے زندگی اپنی شرطوں کے مطابق گزاری‘ اس نے زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کمپرومائز نہیں کیا‘اس کی عمر اس وقت 75 سال ہے اور یہ اب بھی کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کی اس خوبی نے اسے ماں بنا دیا‘ ماں آنند شیلا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیلا کے ساتھ دو گھنٹے


شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…