بدھ‬‮ ، 27 اگست‬‮ 2025 

سنت یہ بھی ہے

datetime 28  اگست‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے کو مسلمان عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘اس میں چراغاں ہوتا ہے‘جلوس نکلتے ہیں‘فیرنی تقسیم کی جاتی ہے اور میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں‘یہ سب درست ہے ہمیں یہ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ مہینہ پوری انسانیت کے لیے اہم ہے‘ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینے دنیا میں تشریف لائے تھے اورہمارے نبیؐ صرف مسلمانوں کے لیے نہیںبلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے ‘اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کو انسانوں کے لیے اپنا احسان قرار دیا ہے‘ آپؐ انسانیت کے لیے کتنا بڑا احسان ہیں ہمیں یہ سمجھنے کے لیے قبل از اسلام اور بعد کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کسی خاص وقت اور قوم کے لیے نہیں تھی‘آپؐ ہر دور اور ہر قوم کے لیے رحمت ہیں‘اللہ تعالیٰ نے کچھ قوموں کو ایمان کی دولت سے محروم رکھا لیکن اس کے باوجود یہ بھی اس تبدیلی اوررسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے بلاواسطہ فیض حاصل کرنے میں کام یاب رہیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ ان قوموں نے رسول اللہ ﷺ کا صرف تعلیم کا پیغام لے لیا۔

دنیا میں اسلام سے قبل تعلیم کی اہمیت‘ افادیت اور اسے حاصل کرنے کی ترغیب اتنی شدت سے کہیں نہیں ملتی‘ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی زندگی کا آغاز ہی پڑھنے کے حکم سے ہوا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم کے ساتھ شعور و آگاہی کی تحریک شروع کی‘ ہر مسلمان پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا‘مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے لیے غیر مسلموں سے مدد حاصل کی‘عین جنگ کے موقع پر اور بعد میں تعلیم پر پوری توجہ دی اور ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا‘ دنیا کی جن قوموں اور ملکوں نے ظہور اسلام کے بعد تعلیم کوریاست مدینہ کی طرح ترجیح اول بنایاوہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی امامت کرنے لگیں‘آپ کو اگر یقین نہ آئے تو میںمیںماضی قریب کی تاریخ میں سے صرف دو ملکوں کی تاریخ آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ آپ کو اس سے ترقی کا راستہ مل جائے گا۔

1950 کی دہائی میں جنوبی کوریا دنیا کا غریب ترین ملک تھا‘ کوریا کی جنگ نے سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔ گاؤں اجڑ گئے‘شہر کھنڈر بن گئے‘کارخانے ختم ہو گئے اور عوام کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا‘ بچے بھوک سے روتے تھے اور مائیں ان کو تسلی دیتی تھیں لیکن یہ ان سے کھانے کا وعدہ نہیں کر سکتی تھیں‘کوریا میں ایک طرف یہ صورت حال تھی اور دوسری طرف اس ملک کے پاس تیل تھا‘ گیس تھی‘ سونا اور نہ ہی دوسرے قدرتی وسائل تھے لہٰذا ان کے پاس بھوک‘ غربت اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں تھا‘ اس زمانے میں دنیا بھر کے ماہرین کا خیال تھا‘ یہ ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گالیکن پھر ان ابتر حالات میں کوریا کی لیڈرشپ نے عجیب فیصلہ کیا‘انہوں نے قوم کو بتایا ہمارے پاس زمین کم ہے اور وسائل بھی نہیں ہیں‘ ہمارے پاس انڈسٹری اور زراعت کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا‘ ہمارے پاس صرف بچے ہیں‘ یہ ہمارا کل اثاثہ ہیں اور ہم اگر ان کو پڑھا دیں تو ہم اور ہمارا ملک ترقی کی لائین میں کھڑا ہو جائے گالہٰذاہمیں صرف تعلیم پر فوکس کرنا ہو گا‘ حکومت نے اس کے بعد ملک میں ایک تحریک چلا دی ہر بچہ سکول جائے گا‘ امیر ہو یا غریب تعلیم حاصل کرنا ضروری ہوگا‘ اساتذہ کو تربیت دی گئی اورتعلیم کا نظام سخت اور معیاری بنادیا گیا‘اس کے بعد حکومتیں بدلتی رہیں لیکن پالیسی نہ بدلی‘ سیاست کے رنگ بدلتے رہے لیکن یہ فیصلہ مستقل رہا اور اس فیصلے نے کوریا کی قسمت بدل دی‘وہ بچے بڑے ہوئے‘ تعلیم نے ان کی سوچ بدل دی‘یہ محنتی اور نظم و ضبط کے پابند ہو گئے‘ 1980ء کی دہائی میں صرف 30 سالوں میں کوریا کی شرح خواندگی 100 فیصد ہو گئی‘ ان بچوں نے آگے جا کر سام سنگ‘ ہنڈائی اور ایل جی جیسے برینڈ متعارف کروائے اور یہ برینڈ ہمارے گھروں اور ہاتھوں تک پہنچ گئے‘آپ جب یہ سطورپڑھ رہے ہوں گے توعین ممکن ہے سام سنگ کا موبائل آپ کے ہاتھ میں ہو یا آپ کے گھر میں ایل جی کی اسکرین نصب ہو اور آپ ان پر یہ سطریں پڑھ رہے ہوں‘یہ ہے کورین حکومت کے وژن کا نتیجہ‘ آج جنوبی کوریا دنیا کی 10 بڑی معیشتوں میں شامل ہے اور یہ صرف اور صرف تعلیم کی دین ہے۔

آپ اب سنگاپور کی کہانی سنیے‘ یہ 1965ء کی بات ہے ملائیشیا سے ایک چھوٹا سا جزیرہ الگ ہوا‘ دنیا اسے ماہی گیروں کی بستی کہتی تھی‘وہاں صنعت تھی نہ وسائل اور نہ معیشت۔ بے روزگاری کا یہ عالم تھا نوجوان ہاتھوں میں کشتیوں کی رسیاں پکڑکر پورا دن گاہکوں کا انتظار کرتے رہتے تھے لیکن انہیں کام نہیں ملتا تھا لیکن پھر ایک رہنما ا ن کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھا اور اس نے نئی نسل کو تعلیم اور ہنر سے جوڑنے کا فیصلہ کیا‘ اس نے کہا ہمیں کوئی وسائل‘ بیرونی امداد اور زمین نہیں چاہیے‘ ہمیں صرف تعلیم بچائے گی‘اس نے نئی زبانیں سیکھنے پر زور دیا‘ نظام تعلیم کو میرٹ کی بنیاد پر قائم کیا‘ نوکریاں میرٹ پر دیں‘ سفارش اور کرپشن کا دروازہ بند کیا اورپھر ان فیصلوں کے رنگ نظر آنے لگے۔ صرف 30 سالوں میں سنگاپور ماہی گیروں کی بستی سے ایک ترقی یافتہ ملک بن گیا‘ آج سنگاپور ایک عالمی مالیاتی مرکز ہے اور اس کا پاسپورٹ دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ ہے۔

آپ اب پاکستان کے حالات کا جائزہ لیجیے۔ پاکستان میں پانی‘ معدنیات‘ تیل اور سونا سب موجود ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ترقی نہیں کر رہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے انسانوں کو ڈویلپ نہیں کیا‘ ہم نے قوم کو تعلیم اور تربیت نہیں دی‘ یہ یاد رکھیں قوموں کی سب سے بڑی طاقت اس کے نوجوان اور اس کے بچے ہوتے ہیں ‘قومیں اگر انہیں استعمال کر لیں تو یہ قدرتی وسائل کے بغیر بھی ترقی کر لیتی ہیں اور اگر یہ وسیلہ نہ ہو تو دنیا کے تمام وسائل مل کر بھی قوم کو قوم نہیں بنا سکتے‘ ہمارے ملک کے 65 فیصد لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں‘ہمیں اس عظیم خزانے کی طاقت کو سمجھنا ہوگااور استعمال کرنا ہو گا لیکن بدقسمتی سے اس وقت ہمارے پانچ سال سے کم عمر اڑھائی کروڑ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں‘ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے اگر سنگاپور اور کوریا اپنی قوم کو تعلیم یافتہ بنا سکتے ہیںتوہم تعلیم کو ترجیح دے کر قوم کو ڈویلپ کیوں نہیں کر سکتے؟ آپ یقین جانیں ہمارے لیے بھی اس پر عمل کے وہی نتائج نکلیں گے جو دوسرے ممالک میں نکلے ہیں۔

ہماری ریاست اس وقت کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے‘اس کے پاس تعلیم کے لیے وقت اور وسائل نہیں ہیں لہٰذا اب تعلیم کو ترجیح اول بنانے کی سنت پر عمل کی زیادہ تر ذمہ داری ہم سب پر عائد ہو گئی ہے‘ پاکستان میں انفرادی سطح پر سینکڑوں افراد یہ کام کر رہے ہیں‘درجنوں ادارے بھی اس کام کے لیے کوشاں ہیں‘ ان اداروں میں ایک نام ریڈفاؤنڈیشن کا ہے‘ میں کئی سالوں سے اس ادارے سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہوں‘ یہ ادارہ کمال کر رہا ہے‘ایک طرف اس نے فارمل ایجوکیشن کے لیے 400 تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں‘ دوسری جانب اس ادارے نے تھرپارکر اور دیامر جیسے علاقوں میں بچیوں کے لیے 120 لٹریسی سنٹرز بنائے ہیں‘ اس کے ساتھ حکومت پنجاب نے اپنے 80 تعلیمی ادارے ان کے حوالے کیے ہیں یوں ان کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی تعداد 600 کے قریب پہنچ گئی ہے اور ڈیڑھ لاکھ طلباء اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ان لٹریسی سینٹرز میں بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ ریڈفاؤنڈیشن کے کام میں بہت ہی خاص بات ان کا یتیم بچوں کا پروجیکٹ ہے‘ یہ ڈونر سے 60 ہزار روپے سالانہ لیتے ہیں جو کہ پانچ ہزار روپے ماہانہ بنتا ہے اور اس تھوڑی سی رقم سے یہ ان بچوں کوتعلیم کے ساتھ ساتھ یونیفارم اور کتابیں دیتے ہیں اور یوں یہ یتیم بچے ڈاکٹرز اور انجینئرز بن رہے ہیں اور ڈونر کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث ثابت ہو رہے ہیں۔ریڈ فائونڈیشن ڈونرز کو زیر کفالت بچے کا مکمل پروفائل بھی ارسال کرتی ہے اورہر سال انہیں بچوں کی کارکردگی سے بھی مطلع کرتی ہے۔

ربیع الاول کے اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودنیا میں بھیج کر انسانیت پر عظیم احسان فرمایا‘ اس احسان کا بدلہ یہ ہے تمام انسان خوشی کے اس موقع پر تعلیم دینے کی سنت پر عمل کریں‘ آپ کوئی تعلیمی ادارہ بنا دیں اور اسے اپنے والدین یا چاہنے والوں سے منسوب کردیں‘یہ ادارہ ان کے لیے صدقہ جاریہ کا اکاؤنٹ ثابت ہوگایا آپ کسی تعلیمی ادارے میں فرنیچر دے دیںیا سائنس لیبارٹری فراہم کردیںاللہ تعالیٰ آپ کو اس دنیا اور آخرت دونوں میں نواز دے گا۔آپ 60 ہزار روپے سالانہ یا 5ہزار روپے ماہانہ ارسال کرکے کسی ایک بچے کو اپنی کفالت میں لے سکتے ہیں۔ریڈ فاؤنڈیشن آپ کو بچے کی تفصیل ارسال کرے گی اور یہ بچہ تعلیم حاصل کرنا شروع کر دے گا‘آپ ایک سے زیادہ بچوں کی کفالت کا ذمہ بھی لے سکتے ہیں‘ یقین کیجیے یہ بچے آپ اور آپ کی نسلوں کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گے۔‘ربیع الاول منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کو ترجیح بنانے کی سنت کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔

میں ریڈفاؤنڈیشن کے رابطہ نمبر اور بینک اکاؤنٹ درج کر رہا ہوں۔ا مید ہے آپ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی یتیم بچے کا سہارا بنیں گے۔ (براہ مہربانی ڈونیشن کے بعد دیے گے نمبرز پر اطلاع ضرور دیں تاکہ آپ کے عطیات آپ کی خواہش اور ترجیح کے مطابق بروقت استعمال کیے جا سکیں)

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سنت یہ بھی ہے


ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…