کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے کا نام نہ لیا‘ بارش یورپ میں معمول ہے‘ شاید ہی یورپ کا کوئی ایسا ملک ہو گا جس میں ہفتے میں دو تین دن بارش نہ ہو‘ لوگ روزانہ گھروں سے برساتیاں اور چھتریاں لے کر نکلتے ہیں‘ گھروں‘ دفتروں اور گاڑیوں میں بھی بارش سے بچائو کے بندوبست ہوتے ہیں‘ یہ لوگ عمارتیں بھی بارش‘ برف اور دھند کو ذہن میں رکھ کر بناتے ہیں لہٰذا بارش ان کا معمول ہے لیکن دو جولائی 2011ء کی بارش نارمل نہیں تھی‘ زی لینڈ اور گریٹر کوپن ہیگن میں بجلیاں کڑکنا شروع ہوئیں اور انہوں نے زمین ہلا کر رکھ دی‘ اگلے دن معلوم ہوا ایک رات میں پانچ ہزار بجلیاں کڑکی تھیں‘ یہ معاملہ اگر بجلیوں تک محدود رہتا تو بھی شاید پریشانی نہ ہوتی لیکن بجلی کے ساتھ ہی آسمان سے آب شار کی طرح پانی بھی گرنا شروع ہو گیا‘ لوگوں کویوں محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان پر کوئی دریا بہہ رہا تھا اور اچانک اس کے کنارے ٹوٹ گئے ہوں اور پھر وہ عمارتوں کے اوپر گرنے لگا ہو‘ یہ سلسلہ 24 گھنٹے جاری رہا‘ اس دوران سڑکیں اور گلیاں پانی سے بھر گئیں‘
ٹرانسپورٹ کا نظام دم توڑ گیا‘ ائیرپورٹ بند ہو گئے‘ ٹرینیں رک گئیں‘ سکول‘ کالج‘ شاپنگ سنٹرز اور فیکٹریاںتباہ ہو گئیں‘ شہر کا سب سے بڑا ہسپتال بھی اپنے 550 بیڈز کے ساتھ پانی میں ڈوب گیا‘سترہویں صدی کا مشہور قلعہ (Kastellet) جسے 300سال کے تھپیڑے تباہ نہیں کر سکے وہ بھی اس بارش کے سامنے نہ ٹھہر سکا‘ کوپن ہیگن کا پولیس اور ریسکیو کا نظام بھی جواب دے گیا اور پھر بجلی بھی بند ہو گئی چناںچہ وہ دن کوپن ہیگن کی تاریخ کے لیے قیامت کادن تھا‘ اگلے دن پانی اترا تو پتا چلا شہر میں بارش کا 52 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے‘ 24 گھنٹے میں 135 ملی میٹر بارش ہوئی ‘ اس سے قبل 1959ء میں 117 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی تھی‘ شہر کا ڈرینج سسٹم اس کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا تھا‘ یہ بھی پتا چلا ڈنمارک میں پہلی مرتبہ ’’کلائوڈ برسٹ‘‘ ہوئے ہیں‘ یہ ایک نیا چیلنج تھا‘ بہرحال اگلے دن شہر میں کیچڑ ہی کیچڑ تھا جس سے چھ بلین کرون (ایک ارب چار کروڑ ڈالر) کا نقصان ہوا‘کارپوریشن کے 257 ورکرز نے دن رات ایک کرکے صفائی مکمل کی تویہ لوگ بیمار ہو گئے ہیں‘ ان کو سانس اور جلد کی بیماریاں ہو گئی ہیں۔
بہرحال قصہ مختصر طوفان آیا اور چلا گیا لیکن وہ اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گیا اگر یہ طوفان دوسری مرتبہ آ گیا یا مسلسل آتا رہا تو پھر شہر کا کیا بنے گا؟ ماہرین نے تخمینہ لگایا شہر کی نکاسی کا سسٹم صرف سو ملی میٹر تک بارش برداشت کر سکتا ہے اور اگر مستقبل میں کوئی ایسا طوفان آ گیا یا یہ نیونارمل ہوگیا توپھر شہر نہیں بچ سکے گا لہٰذا فیصلہ ہوا ہم نے فوری طور پر اڑھائی سو ملی میٹر بارش جذب اور برداشت کرنے کا نظام بنانا ہے‘ حکومت نے اس کے لیے دو بلین یورو کا بجٹ مختص کر دیا‘ ڈینش ماہرین اکٹھے کیے گئے تھے‘ انہوں نے سروے کیا اور تین درجوں پر مبنی سسٹم بنا دیا‘ سسٹم کے پہلے حصے کا نام سپنچ پارکس (Sponge) تھا‘ ماہرین نے فوری طور پر پورے شہر میں درختوں کے نئے ذخائر لگا دیے‘ جہاں جہاں زمین موجود تھی وہاں درختوں کا ذخیرہ لگ گیا‘ شہر کے تمام حصوں میں چھوٹے چھوٹے تالاب بھی بنا دیے گئے‘ یہ سپورٹس کمپلیکس اور کھیل کے میدانوں کو زمین سے دس پندرہ فٹ نیچے لے گئے‘
یہ میدان بارش میں پانی کے تالاب بن جاتے ہیں اور آدھی سے زیادہ بارش کو سٹور کر لیتے ہیں‘ شہر کے مختلف حصوں میں بور کرکے ان کے اوپر ریت اور بجری کی تہہ جما دی گئی‘ یہ بور بارش کے پانی کو فلٹر کر کے زمین کی تہہ میں لے جاتے ہیں‘گلیوں کے ساتھ ساتھ جالی دار نالیاں بنا دی گئیں اور یہ نالیاں بھی پانی جذب کر کے زمین کے اندر اتار دیتی ہیں‘ یہ سارا سسٹم سپنچ کہلاتا ہے‘ اس کے بعد حکومت نے شہر کے مختلف حصوں کے نیچے واٹر ٹنلز بنا دیں‘ یہ ٹنلز تین میٹر چوڑی اور اٹھارہ کلومیٹر لمبی ہیں‘ ان میں ہر آدھ کلومیٹر بعد ایک بڑا واٹر ٹینک آ جاتا ہے‘ ٹنل کا پانی سب سے پہلے ٹینک میں جاتا ہے‘ وہ بھرنے کے بعد پانی آگے چل پڑتا ہے پھر دوسرا ٹینک بھرتا ہے اور پھر اس کے بعد تیسرا اور یوں ٹینک بھرتے چلے جاتے ہیں اور سیلاب آگے بڑھتا جاتا ہے‘ یہ ٹنلز اور ٹینک دس ہزار کیوبک میٹر پانی سٹور کر سکتے ہیں جب کہ سسٹم کا تیسرا حصہ سمندر ہے‘ حکومت ٹنلز کا اضافی پانی سمندر کے ایک قریبی جزیرے میں لے جاتی ہے وہاں بھی واٹر ٹینک بنے ہوئے ہیں‘ پانی پہلے ان ٹینکس میں جاتا ہے اور پھر سمندر میں گرتا ہے‘ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے حکومت کو اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ پانی سیدھا سمندر میں ڈال دیتی‘ یہ نارمل حالات میں ممکن ہے لیکن بعض اوقات سمندر کی لہریں اور سطح شہر سے بلند ہو جاتی ہے‘ ان حالات میں شہر کا پانی سمندر میں نہیں پھینکا جا سکتا چناں چہ حکومت نے پانی پہلے جزیرے تک پہنچایا اور پھر اسے سمندر میں پھینکاتاکہ یہ شہر میں واپس نہ آ سکے۔
یہ سارا سسٹم یقینا مہنگا ہے‘ اس پر دو بلین یوروز خرچ ہوئے ہیں‘ ہم کہہ سکتے ہیں ڈنمارک امیر یورپی ملک ہے‘ اس کی آبادی بھی صرف 60 لاکھ ہے جب کہ ہم ایک غریب ملک ہیں اور ہماری آبادی بھی 25 کروڑ ہے‘ کراچی شہر کی آبادی ڈنمارک سے تین گنا زیادہ ہے لیکن اس فرق کے باوجود دونوں ملکوں میں ایک چیز کامن ہے اور وہ ہے انسان‘ ڈنمارک میں بھی ہم جیسے انسان بستے ہیں‘ ان کا دماغ بھی کل جسم کا دو فیصد ہے اور ان کو بھی قدرت نے دو ہاتھ‘ دو پائوں‘ دو آنکھیں‘ دو کان اور دو نتھنے دے رکھے ہیں اور یہ لوگ قدرت کی دی صلاحیتوں سے کلائوڈ برسٹ کا مستقل حل نکا لیتے ہیں جب کہ ہم ہر سال ایک ہی قسم کی آفت کا شکار ہوتے ہیں اور ہم نے ابھی پچھلا ملبہ اٹھایا نہیں ہوتا کہ اگلی مون سون شروع ہو جاتی ہے‘ دوسرا آپ کسی دن کراچی شہر کا آڈٹ کرا لیں پتا چلے گا ہم اب تک نالوں اور سیوریج پر کوپن ہیگن سے زیادہ خرچ کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود سڑکوں سے پانی ختم نہیں ہو سکا اور تیسری چیز یہ سپنچ پارکس جیسے حل ہیں جو قوموں کو قومیں اور ملکوں کو ڈنمارک بناتے ہیں اور جو لوگ مسائل کو ٹالنے اور مال بنانے کی خو میں مبتلا ہوں وہ کبھی تیسری دنیا سے باہر نہیں نکل پاتے‘ میں پچھلے دنوں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو سن رہا تھا‘ ان کا کہنا تھا ہمیں نئے سیوریج سسٹم کے لیے پورا شہر کھودنا پڑے گا‘
اب سوال یہ ہے ڈنمارک نے کلائوڈ برسٹ کے بعد پورا شہر کیوں نہیں کھودا تھا‘ انہوں نے کیسے آسانی سے عام پارکوں‘ گرین بیلٹس اور پانی کی نالیوں کو سپنچ میں تبدیل کر لیا؟ انہوں نے واٹر ٹنلز بھی وہاں بنائے جہاں انہیں شہر کو کھودنا نہیں پڑا‘ یہ خالی جگہوں کو ٹنلز اور ٹینک میں تبدیل کرتے چلے گئے اور یوں کام بھی ہو گیا اور شہری بھی کوفت سے بچ گئے‘ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ اس سے زمین میں پانی کی سطح بھی بلند ہو جائے گی‘ فضائی آلودگی بھی کم ہو جائے گی اور پانی کے ذخائر بھی اکٹھے ہو جائیں گے‘ کارپوریشن اس پانی کو شجر کاری‘ سڑکیں دھونے اور کاشت کے لیے استعمال کر سکتی ہے‘ ہم اسی طرح اسلام آباد کے اردگرد خشک نہر کھود سکتے ہیں‘ یہ نہر سرکل میں ہو‘ اس کے ساتھ ساتھ رنگ روڈ ہو اور اس رنگ روڈ پر کمرشل ایریاز ہوں‘ مون سون میں یہ نہر بھر جائے گی‘ اس سے واٹرلیول بھی بلند ہو جائے گا‘ کاشت کاری بھی ہو سکے گی اور فضائی آلودگی بھی کم ہو جائے گی‘ پرانے زمانے میں ہر شہر اور ہر گائوں میں پانی کے جوہڑ ہوتے تھے‘
وہ بارش کا سارا پانی جذب کر لیتے تھے‘ ڈھور ڈنگر انہی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے‘ وہ کہاں چلے گئے؟ دوسرا شہر اور ہائوسنگ سکیمیں بناتے وقت پانی کے اخراج کی گرینڈ سکیم کیوں نہیں بنائی جاتی‘ میں بچپن سے نالہ لئی سن رہا ہوں‘ ہر حکومت نے اسے بڑا کرنے اور تجاوزات ہٹانے کا اعلان کیا لیکن نالہ لئی ہر بار دس پندرہ لوگوں کی جان اور دو چار درجن گھر لے کر گیا‘ ہم ایک ہی بار یہ مسئلہ حل کیوں نہیں کر لیتے؟ کلائوڈ برسٹ اب ہمارے لیے نیونارمل ہے‘ یہ ہر سال ہوں گے‘ ہمارے گلیشیئرز بھی پھٹیں گے اور بارشیں اور سیلاب بھی بڑھیں گے اور ہمارے ملک میں ہر سال خشک سالی بھی آئے گی لیکن ہم آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہم ہر سال ریسکیو اور بحالی میں دو چار سو ارب روپے جھونک دیتے ہیں لیکن مسئلہ حل نہیں کررہے‘ کیوں نہیں کررہے؟ کیا صلاحیت کی کمی ہے؟ وژن نہیں ہے یا پھر ہم میں مسائل کے ادراک کی کیپسٹی نہیں ہے؟ہم بہت ہی دل چسپ لوگ ہیں ہم ایک طرف ایٹم بم بنانے پر آ جائیں تو پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایٹمی طاقت بن جاتے ہیں اور دوسری طرف ہم نارمل دنوں میں کراچی کے عوام کے لیے پانی کا بندوبست نہیں کر پاتے اور بارشوں میں ہمارا پورا شہر ڈوب جاتا ہے‘ ہم اسلام آباد جیسے چھوٹے سے شہر کے لیے بھی پانی اور نکاسی آب کا سسٹم نہیں بنا پاتے‘ کیا بلندی ہے اور کیا پستی ہے۔
میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ مہربانی کر کے آبی ماہرین کو اکٹھا کریں‘ ملک میں سینکڑوں ماہرین موجود ہیں‘ ڈنمارک کی حکومت سے ان کا رابطہ کرائیں‘ انہیں کوپن ہیگن بھجوائیں‘ یہ اس سسٹم کا معائنہ کر کے آئیں‘ آپ انہیں جاپان اور چین بھی بھجوائیں‘ چین نے چھ سو شہروں کو فلڈ فری بنا لیا ہے جب کہ جاپان اب سونامی کا بھی مقابلہ کر رہا ہے‘ آپ پھر انہیں کراچی‘ لاہور‘ حیدرآباد‘ فیصل آباد‘ سیالکوٹ اور راولپنڈی کے نکاسی آب کی ذمہ داری دے دیں‘ مجھے یقین ہے ہم دو تین برسوں میں اپنا پاکستانی سسٹم بنا لیں گے‘ اس سے ہم بھی بچ جائیں گے اور ہمارا سرمایہ بھی ورنہ دوسری صورت میں ہم پیاسے مر جائیںگے یا پھر پانی میں ڈوب کر فوت ہو جائیں گے اور دشمن کو ہمیں مارنے کے لیے کسی بم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔