اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)روزنامہ جنگ اور جیو نیوز کے معروف صحافی اعزازسید اڈیالہ جیل میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ نوازشریف اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ایک ایسے چھوٹے سے سیل میں رہتے ہیں جس میں بمشکل ایک بستر اور کرسی رکھنے کی جگہ ہے۔ کمرے میں ایک ٹی وی دیا گیا ہے۔ جس پر صرف پی ٹی وی کی نشریات آتی ہیں۔
یہ سرکاری نشریات بذات خود ایک الگ سزا ہیں۔ مگر یہ سزا میں نہیں سہولت میں شمار کی جاتی ہیں۔ انہیں پڑھنے کیلئے ایک اخبار اور کام کاج کیلئے ایک قیدی جسے جیل کی زبان میں مشقتی کہتے ہیں، دیا گیا ہے مگر اسے غیرضروری بات کرنیکی اجازت نہیں۔ جس سیل میں نوازشریف ہیں اسکے اردگرد موجود کم ازکم دیگر پانچ سیلز کو خالی رکھا گیا ہے تاکہ اردگرد کے قیدی بھی سابق وزیراعظم کو دیکھ سکیں نہ ان سے بات کرسکیں۔ عملی طور پر نوازشریف قید تنہائی میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ انیس سو چھیاسی میں انکی وزارت اعلیٰ پنجاب کے دنوں میںتعمیر ہونیوالی اڈیالہ جیل راولپنڈی کی اس عمارت میں کبھی وہ خود بھی قیدی بن کر آئینگے۔ راولپنڈی اور راولپنڈی کی جیل دونوں ہمارے سابق وزرائے اعظم کیلئے کبھی اچھی خبر نہیں لائے۔ یہ شہر کروڑوں ووٹ لیکر اقتدار میں آنیوالے وزرائے اعظم کو توہین آمیز طریقے سے نکالنے کیلئے سازشوں میں مرکزی کردار ادا کرتا رہا۔ اس شہر میں دو سابق وزرائےاعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو قتل ہوئے اور یہاں کی جیل ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں پھانسی کا ہار بھی پہنا چکی۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی دو سابق وزرائےاعظم بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو اپنی آغوش میں رکھ چکی۔ ویسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی اسی جیل میں رہ چکے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے
رہنما کی حیثیت میں۔ شاید یہ جیل کی قربانی ہی تھی جو گیلانی کو وزارت عظمیٰ تک لے گئی۔ سپریم کورٹ میں سزائے موت کے جن قیدیوں کی اپیلیں زیر سماعت ہوتی ہیں اور انکی زندگی اور موت کے فیصلے حتمی مراحل میں ہوتے ہیں۔ انکی ملاقات کیلئے جیل حکام نے جمعرات کا دن مقرر کررکھا ہے چونکہ نوازشریف کے ملاقاتیوں کی فہرست بھی طویل ہوتی ہے اسلئے ان کیلئے بھی
جمعرات کا دن مقرر کیا گیا ہے۔ اس روز صبح تقریباََ ساڑھے دس سے تین بجے تک ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتاہے۔جمعرات دو اگست کو نوازشریف کریم رنگ کی شلوار قمیض میں جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفترسے سے ملحق ایک کمرے میں موجود تھے۔ آج وہ روایتی واسکٹ کے بغیر تھے اورگرمی کی وجہ سے پسینہ بھی بار بار پونچھ رہے تھے۔ وزن پہلے کی بہ نسبت کم نظر آرہا تھا،
مگر پراعتماد دکھ رہے تھے۔ نشست کچھ اس طرح تھی کہ داخلی دروازے کی دائیں جانب سامنے کی دیوار کیساتھ دو نشستیں رکھی تھیں۔ جنکے دائیں اور بائیں جانب کرسیوں کی دو دو قطاریں لگی ہوئی تھیں جن پر ملاقاتی براجمان ہوتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہوں۔ فرق یہ کہ درمیان میں لمبی میز نہیں۔ نوازشریف کمرے میں داخل ہونے کے بعد ملاقاتیوں
سے فرداََ فرداََ ملتے اور اپنی نشست پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی دائیں جانب جیل کی کھڑکی ہے۔ جس پر لوہے کی آہنی سلاخیں اور جالی لگی ہوئی ہے۔ کھڑکی سےجیل کے اندر کی راہداری نظر آتی ہے جبکہ نوازشریف اپنے بائیں جانب کھڑکی کو دیکھیں تو جیل کی راہداری اور اس کے بعد ایک جالی جو باہر کی آزاد فضا کا منظر پیش کرتی ہے۔ چھت پر دو پنکھے ہیں اے۔ سی کا کوئی انتظام نہیں۔
تمام قیدی اپنے پیاروں سے اس سے بھی بدتر ماحول میں ملتے ہیں۔جیل میں مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی الگ الگ رکھا گیا ہے۔ کیپٹن صفدر ملاقاتیوں سے مسکرا مسکرا کرملتے ہیں۔ ان کا وزن مزید کم ہوا ہے مگر چہرے پر پہلے سے زیادہ تازگی۔ جس دھج سے انہوں نے راولپنڈی میں گرفتاری دی وہ خود میاں نوازشریف اور مریم نواز کے حصےمیں نہ آسکی۔ وجہ وہ نہیں شہباز شریف تھے
جو ائیرپورٹ آنے کو تیار نہ تھے۔ اگر اس روز وہ ائیرپورٹ آجاتے شاید آج ان کی جماعت کی پوزیشن اور بہتر ہوتی۔ مریم اکثر والد کیساتھ بیٹھتی ہے اور ملاقاتیوں سے خوب بات چیت ہوتی ہے۔ مریم اور صفدر جیل کی بھٹی میں جل کر کندن بننے کے عمل سے گزررہے ہیں۔ جیو نیوز کے رانا جواد اور سابق چیئرمین پیمرا اور سینئرصحافی ابصار عالم نوازشریف کیساتھ ساتھ مریم نواز
سے بھی سوال جواب میں مگن رہے۔ مریم نواز سے پوچھا گیا کہ وہ جیل میں فراغت کےدوران کیا کرتی ہیں تو بولیں، ” وقت تلاوت قرآن و وظیفہ میں گزرتا ہے، آج کل اوریانا فلاشی کی کتاب انٹرویو ود دی ہسٹری پڑھ رہی ہوں،”۔ مریم مطمئن ہے اور کسی قسم کی بیزارگی سے آزاد۔ رومی نے کہا تھا، ترجمہ : اپنے بدترین دنوں میں بے خوف ہو کر انتظار کرو۔ مریم شاید ایسی ہی کسی صورتحال
سے دوچار ہے۔ امید ہی نہیں یقین کیساتھ کہ اچھے دن لوٹ آئینگے۔ اس کی والدہ ٹھیک ہوجائیں گی اور وقت بدلے گا۔ ابھی مرکز اور وفاق میں حکومت سازی کا عمل جاری ہے اسلئے اڈیالہ جیل وفاق اور پنجاب میں سیاسی سرگرمیوں کیلئے نوازشریف کی ہدایات کی مرکز بھی ہے۔ شہباز شریف جو اقتدار میں آنے کیلئے ہردم بیتاب ہیں ،ملاقات میں خواہشمند تھے کہ وہ مرکز میں نہ سہی
تو پنجاب میں ہی آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر حکومت بنا لیں لیکن اطلاعات کے مطابق نوازشریف نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ شہبازشریف ہیں تو نوازشریف کے بھائی مگر وہ ان بہت مختلف ہیں۔ پکے کاروباری۔ نفع اور نقصان کو عہدے اوراقتدار سے تولنے والے لیکن بھائی کے بھی وفادار۔ آپ دوست اپنی مرضی کا رکھ سکتے ہیں مگر بھائی تو خدا کی مرضی کا ہی ہوتاہے۔
یہی حال نوازشریف کا ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو شہباز شریف سے ملتا ہو۔ بہرحال بھائی بھائی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھائی کی نظریں کافی عرصہ سے وزارت عظمیٰ پر ہیں۔ راستے میں مریم آگئی تھی۔ مریم کی شعلہ بیان تقریروں نے عوام کواس کا گرویدہ کیا تو بھائی بھی پریشان ہو گیا اور اسکا بیٹا حمزہ بھی۔ اب چونکہ نوازشریف اور مریم جیل میں ہیں اسلئے بھائی
مرکز میں لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کی تگ و دو کررہے ہیں تاکہ کل کلاں وزارت عظمی بھی مل جائے لیکن ہونا وہی ہے جو ازل پے لکھا ہے اور کسی کو پتہ نہیں۔ نوازشریف سے ملاقاتوں کیلئے ہرطرح کے لوگ آتے ہیں ، اقتدار کے پجاری بھی ، نظریاتی، غیر نظریاتی بھی۔ ملاقاتیوں میں نگرانی کرنے والے کے علاوہ ذاتی دوست ، احباب، اہم شخصیات ، عہدیدار، پرانے ساتھی ،
بے لوث ، مفاد پر ست سب شامل ہیں۔ وہ بھی شامل ہیں جو کسی طور اقتدار کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور وہ بھی جو اقتدار چھوڑ دیتے ہیں۔نوازشریف کیلئے اقتدار چھوڑ جانے والوں میں سے ہی ایسا ایک نام محمد زبیر کا بھی ہے جو جمعرات کو ملاقاتیوں کی فہرست میں شامل تھا۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو شکست ہوئی تو یہ صاحب گورنر سندھ تھے۔ دوسرے روز ہی پارٹی کی مرکزی
مجلس عاملہ کے اجلاس میں جابیٹھے اور اپنے استعفے کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم آزاز کشمیر راجہ فاروق حیدر نے تجویز دی کہ ایک گورنر ہی کیوں صدر مملکت اور چاروں گورنرز اکٹھے استعفیٰ دیں۔ تجویز قبول کرلی گئی۔ مگر استعفیٰ صرف اسی مرد حر کا سامنے آیا۔ پیامبر جب پیغام لے کر صدر مملکت ممنون حسین کےپاس پہنچا تو صدر بولے کہ ،” میں تو ویسے بھی ستمبر کے پہلے
ہفتے میں اپنی مدت پوری کررہا ہوں۔ اگست کے وسط میں مجھے ایڈنبرا یونیورسٹی نے بطور صدر اعزازی ڈگری دینا ہے۔ فی الحال میرا ایوان صدر میںرہنا زیادہ ضروری ہے، رفیق تارڑ بھی تو مشرف کے قبضے کے بعد دو سال تک ایوان صدر رہے،”۔ پیامبر نے صدر مملکت کی سب باتیں بیان کرڈالیں۔ اقتدار سے نہ نکلنے کی ایسی ہی مزاحیہ دلیلوں کے قصے گورنر پنجاب رفیق رجوانہ،
گورنر کے پی اقبال ظفر جھگڑا کے ہیں۔ نوازشریف کو جب سرگوشیوں میں ایسی بے وفائیوں کے قصے سنائے جاتے ہیں تووہ پہلے سنجیدہ ہوتے ہیں ، شاید ذہن میں کوئی جمع تفریق کر رہے ہوں اور پھر مسکراتے ہیں۔ شایدکچھ سمجھتے ہوئے۔ نوازشریف کہتے ہیں کہ عام انتخابات کو چرایا گیا ہے لیکن اگر ان کی جماعت کو برابر موقع ملتا تو نتیجہ وہ آتا جو موجودہ نشستوں کو تین سے ضرب دے کر آتا ہے۔
جو ووٹ انہیں پڑے دراصل وہ تحریک انصاف کی مخالفت میں نہیں پڑے بلکہ وہ کسی اور کی مخالفت میں پڑے۔ انہیں یقین ہے کہ آج نہیں تو کل جو وہ کہہ رہے ہیں ، سب وہی کہیں گے اور فتح انہی کی ہوگی۔ نوازشریف بتاتے ہیں کہ پہلے روز انہیں جیل میں زمین پر ایک گدے پر سلایا گیا۔ کمرہ انتہائی خراب حالت میں تھا۔ ٹوائلٹ بدبودار تھا۔ اب ذرا صفائی کے بعد بہتری آئی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا
کہ انہیں پمز زبردستی لے جایا گیا۔ وہ صرف بیٹی مریم اور صفدر کے مشورے پر ہی اسپتال گئے۔اسپتال میں ایک عمررسیدہ ڈاکٹر نے انہیں دیکھا تو وہ رونے لگے۔نوازشریف نے ہنستے ہوئے ملاقاتیوں کو بتایا کہ وہ ڈاکٹر سے بولے .ہمیں تو گردش حالات پے رونا آیا ۔۔ڈاکٹرصاحب آپ کو کس بات پے رونا آیاڈاکٹر نے کہا کہ وہ سابق وزیراعظم کے ساتھ کیے گئے سلوک کو برداشت نہ کرسکا۔
نوازشریف سے ملاقات میں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ کوئی کسی قیدی سے مل رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی آزاد شخص سے مل رہے ہیں۔ جو اقتدار اور اپنوں کے چھن جانے سب کے خوف سے آزاد ہے۔نوازشریف سوال کرتے ہیں کہ جج نے خود فیصلے میں لکھا ہے کہ ان پر کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی تو پھر انہیں سزا کس بات کی دی گئی۔ شاید انہیں خود بھی جواب کا پتہ ہے۔
نوازشریف گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے کہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ایک اور آفیسر کیساتھ آئے اور انہوں نے نوازشریف کے کان میں کچھ کہا۔ نوازشریف نے سر جھٹکا اور پھر ملاقاتیوں سے مخاطب ہوئے ، ” میں آپ سے باتیں تو بہت کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ بتا رہےہیں کہ وقت ختم ہوگیا اور یہ مجھے لےجانا چاہتے ہیں”۔ چلتے چلتے نوازشریف سے پوچھا کیا کسی نے کچھ پیشکش کی ؟ وہ جواب میں نفی میں سر ہلاتے بولے، “نہ کی ہے نہ میں خواہشمند ہوں”۔ نوازشریف آہستہ آہستہ چلے گئے۔