اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) ایف بی آر کے سابق چئیرمین شبر زیدی نے کہا کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سمیت تین اقدامات کر کے پاکستان کے ٹیکسیشن نظام کو آدھے گھنٹے میں ٹھیک کیا جا سکتا ہے ۔بینکنگ ڈیٹا پر دسترس کے ساتھ سیلز ٹیکس میں کمرشل تعلقات ہو نے چاہیئں ۔
روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ چئیرمین ایف بی آر کی حیثیت سے استعفیٰ اس لئے دیا چونکہ انہیں یہ اندرونی خوف لاحق تھا کہ انہوں نے حقیقی مقصد جا نے بغیر مختلف فائلوں پر دستخط کیوں کئے ۔شبر زیدی نے یہ بھی کہا کہ مالی فریم ورک موجودہ آئینی سائرہ کار میں نہیں چلایا جا سکتا کیونکہ مصنوعات اور خدمات میں فرق کر نے کے حوالے سے یہ بڑا پیچیدہ ہے ۔انہوں نے کی زراعت پر ٹیکس کو قفاد کے دائرہ کار میں لانا چاہئے ۔خدمات اور مصنوعات پر ٹیکس بھی وفاق کے دائرہ اختیار میں ہو نا چاہئے اورتب فینڈز صوبوں کو منتقل کئے جا نے چاہئیں ۔سابق چئیرمین ایف بی آر نے کہا کہ وہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے شرمندہ ہیں کیونکہ انہیں دونوں کا مکمل تعاون حاصل رہا لیکن وہ خود توقعات پر پورے نہیں اتر سکے ۔استعفیٰ دینے کی مختلف وجوہات ہیں ۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ورلڈ بینک سے مالیات میں
اضافہ کر نےکے نام پر 40 کروڑ ڈالرز کا قرضہ ملا لیکن انہیں علم نہ تھا کہ یہ پیسہ کرپشن کی نذر ہوگا ۔قرضے کی رقم سے مختلف اقدامات کا وہ جواز فراہم نہیں کر سکے ۔تیسرے پبلک اکائونٹس کمیٹی میں ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے افسران کو بلا جواز ہراساں کیا جا تاہے ۔
انہوں نے مثال دی کہ کسٹمز سے متعلق چار لاکھ روپے کے ری فنڈ پران سے درشت رویہ اختیار کیا گیا ۔2009کے ری فنڈ پر ان سے 2019میں سوال اٹھایا گیا ۔ایف بی آر کے ایک افسر نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کی جا نب سے بدسلوکی کو ہم نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے
اڑا دینا شروع کردیا تھا ۔شبر زیدی نے کہا کہ سرکاری افسران ایسے درشت رویہ کے ساتھ کیسے زندہ ہیں ، ان کے لئے یہ رویہ ناقابل برداشت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں کچھ کاغذات فیکس سے چوری کر کے میڈیا کے ساتھ شیئر کئے گئے ۔ حتیٰ کہ بیرونی عناصر کی
مالی مدد سے ان کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ شرح نمو کے تناسب سے ٹیکس میں اضافہ کیونکر کیا جاسکتا ہے ؟انہوں کہا کہ مڈل مین ور خوردہ فروش اس ملک میں سب سے بڑی مافیا ہے کیونکہ ان کے پاس شٹر ڈائون کا اختیار ہو تا ہے اور صورتحال سے
فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پیداوار سے متعلق طبقات مسئلہ نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ شکر اور آٹے کے حالیہ بحران میں مل مالکان ے ،مقابلے میں سب سے زیادہ فائدہ مڈل میں اور خوردہ فروش نے کمایا ۔انہوں نے کہا کہ مسائل کے حل میں ٹیکسیشن نظام کی درستی ، ٹریک اینڈ ٹریس
سسٹم کا نفاذ اوعر تین لاکھ روپے تک صنعتی اور تجارتی تعلق پر سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے لئے بینکنگ ڈیٹا تک دسترس ہو نی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ نظام پر ریاست کی گرفت کمزور ہے ۔اگر کوئی کچھ کر گزرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو تا ہے تو سب اس کے خلاف ہو جا تے ہیں ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کہیں تیز رفتاری تو انہیں نہیں لے ڈوبی ؟ انہوں نے کہا جب انہوں نے اصلاحات کے لئے کاوشیں کیں تو آئی ایم ایف کے ایک اعلیٰ افسر ارنسٹو نے کہا کہ پاکستانی یہ سب کچھ نہیں چاہتے ۔انہوں نے کہا کہ انہیں اس وقت بڑی مایوسی ہو ئی تھی جب 40 نوجوان افسران نے
یہ کہا کہ وہ مارکیٹ کی بنیاد پر تنخواہوں میں اضافہ نہیں چاہتے بلکہ انہیں سرکاری مشنری کا کل پرزہ ہی رہنے دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد مالی حب نہیں بن سکتا .اسٹاک مارکیٹ کراچی میں ہوتی ریگولیٹر اسلام آباد میں ہے ۔کسٹمز کلئیرنس کراچی لیکن ممبر کسٹمز اسلام آباد میں
بیٹھے ہو تے ہیں ۔انہوں نے کہ ایف بی آر کو دو بورڈز میں تقسیم ہو نا چاہئے ۔کسٹمز ہورڈ وزارت داخلہ کے تحت ہو ۔ایف بی آر کی اپنی الگ حیثیت ہو ۔انہوں نے کہا کہ ادارے کی 22 ہزار کی نفری میں دو ہزار کام کے اور 20ہزار فالتو کے ہیں کن کا کام صرف رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔