چند آدمیوں کی لاقانونیت و آئین شکنی کا الزام پوری فوج کو نہیں دے سکتا،نوازشریف کا جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید سے حیرت انگیز سوال

13  ‬‮نومبر‬‮  2020

اسلام آباد(آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کراچی واقعے کی رپورٹ ایک مرتبہ پھر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چند آدمیوں کی لاقانونیت اور آئین شکنی کا الزام پوری فوج کو نہیں دے سکتاآٹا، چینی، بجلی و گیس سمیت ہر چیز کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، ادویات عوام کی پہنچ سے دور ہیں، روپیہ خطے میں سب سے کمزور ہوگیا،

یہ سب ایک نااہل، بد عنوان، کٹھ پتلی اور لاڈلے کی وجہ سے ہے،جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید جواب دیں کہ انہوں نے پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں کیوں پھینکا؟۔سابق وزیراعظم نواز شریف نے سوات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے جلسے سے ویڈیو خطاب میں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، ایک طرف تعمیر و ترقی کا سلسلہ رک گیا ہے جس کی بنیاد مسلم لیگ (ن) نے ڈالی تھی دوسری طرف مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت نے جینا محال کردیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ ہماری حکومت نے عوام کو کے لیے بہت کچھ کیا، جب ترقی کے کام ہوتے ہیں تو روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، خوش حالی آتی ہے، کسان کی حالت بہتر ہوتی ہے جو ہم نے کرکے دکھایا۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہم حکومت میں آئے تھے تو لوگ 20 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کررہے تھے اور ہر طرف دہشت گردی ہی دہشت گردی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے جب ہماری حکومت ختم ہوئی تو ہم نے ان بحرانوں پر قابو پا لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ‘موجودہ حکومت نے ہر اعتبار سے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، لوگ سبزی اور دال بھی نہیں کھا سکتے ہیں ’۔ان کا کہنا تھا کہ‘ا?ج روٹی 20 روپے تک جا پہنچی ہے جبکہ ہمارے دور میں 5 روپے کی روٹی تھی، چینی اب 110 روپے کی ہوگئی جو ہمارے دور میں

لگ بھگ 50 روپے تھی’۔حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ‘دوائیاں بھی لوگوں کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں اور لوگوں کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ روٹی خریدیں یا دوائی خریدیں یا پھر بچوں کے اسکول کی فیس ادا کریں یا ان کے کتابیں خریدیں ’۔انہوں نے کہا کہ‘بجلی اور گیس کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے اور روپیہ خطے میں سب سے کمزور ہوگیا ہے، افغانستان

میں 40 سال کی جنگی تباہ کاریوں کے باوجود ان کی کرنسی روپیہ سے بہتر ہے’۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ سب اس لیے کہ ایک نااہل، بد عنوان اور کٹھ پتلی ٹولہ مسلط کر دیا گیا ہے جو عوام کو نہیں بلکہ کسی اور کو جواب دہ ہے، اس کو عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی خوشنودی چاہیے’۔ان کا کہنا تھا کہ‘مسلم لیگ (ن) کی فتح کو شکست میں بدلنے اور اپنے لاڈلے کو اقتدار میں لانے کے

لیے اس ملک میں جو کچھ ہوا ہے، وہ قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ‘مجھے اپنے اور میرے خاندان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر دکھ نہیں لیکن صرف نواز شریف سے عداوت کی بنیاد پر جس طرح اس ملک کے ساتھ زیادتی کی گئی، 22 کروڑ عوام کوظلم کا نشانہ بنایا گیا اور جس طرح نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا گیا اس کا جواب کون دے گا’۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل قمر

جاوید باجوہ یا جنرل فیض حمید جواب دیں کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا اور انہوں نے پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں کیوں پھینکا’۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ‘پھر کہتے ہیں نواز شریف ہمارا نام کیوں لیتا ہے، تو پھر میں کس کا نام لوں، میں چند آدمیوں کی لاقانونیت اور آئین شکنیوں کا الزام پوری فوج کو نہیں دے سکتا اور کیوں دوں ’۔ان کا کہنا تھا کہ‘ٹھیک ہے جنرل

باجوہ اور جنرل فیض آپ نے اپنی مرضی کی جے آئی ٹی تو بنوالی، اس کے فیصلے بھی آپ نے حاصل کرلیے اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹوا بھی دیا’۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ‘مجھے شہباز شریف، مریم نواز، میرے خاندان اور پارٹی کے لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا، میڈیا کے ذریعے ہماری کردار کشی اب بھی جاری ہے، اگر معاملہ یہی تک رہتا تو چلیں کوئی بات نہیں تھی

لیکن پورے عوام کو غربت، مہنگائی اور غربت میں دھکیلنے کا جواب کسی نہ کسی کو تو دینا پڑے گا اور دینا ہوگا’۔انہوں نے کہا کہ‘میرا تو جرم تھا کہ میں پاکستان کے عوام کی حکمرانی، آئین، جمہوریت کے اصولوں اور اپنے حدود کے اندر رہنے کی بات کرتا تھا لیکن عوام کا کیا قصور تھا’۔اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ‘عوام سے روزگار اور روٹی کا نوالہ کیوں چھین لیا گیا، بچوں

سے تعلیم کیوں چھین لی گئی، دوائیاں اور علاج کی سہولتیں کیوں چھین لی گئیں اور عوام کو عزت سے رہنا کیوں مشکل بنا دیا گیا، اس کا جواب میں صرف عمران خان سے نہیں مانگتا بلکہ اس کو لانے والوں سے مانگتا ہوں کیونکہ وہ تو کٹھ پتلی ہے’۔انہوں نے کہا کہ‘اس کو ہلانے والی انگلیاں اس ظل و جبر کا حساب دیں گی، کراچی میں کس طرح سندھ پولیس کے سربراہ آئی جی کو رات

گئے گھر سے اغوا کرکے یرغمال بنایا گیا اور پھر ایک بے بنیاد اور غیرقانونی ایف آئی آر کاٹنے کا حکم دیا گیا اور مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے کمرے کو توڑا گیا اور صفدر کو گرفتار کیا گیا’۔ان کا کہنا تھا کہ‘اس شرم ناک رویے پر سندھ پولیس نے اپنا ردعمل دیا، اس پر جنرل باجوہ نے خود انکوائری کروانے کا اعلان کیا، اب ایک پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے کہ انکوائری مکمل

ہوگئی اور ذمہ داروں کو موجودہ ذمہ داروں کو ہٹا دیا گیا’۔انہوں نے کہا کہ‘میں کہتا ہوں کہ یہاں حکومت کے اوپر ایک حکومت ہے، ریاست کے اوپر ایک ریاست ہے تو کیا کراچی کے واقعے میں میرے مؤقف کو سچا ثابت کردیا یا نہیں ’۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ‘پہلے یہ تو دیکھیں کہ ایف آئی آر کٹوانا آئی ایس آئی اور رینجرز کا کام اور ذمہ داری ہے، اگر پولیس بے بنیاد اور غیرقانونی ایف

آئی آر درج کرانے سے انکار کردے تو کسی ادارے کو یہ حق ہے یہ بندوق کی زور پر آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کو اغوا کرلے کیا کسی مہذب ملک میں ایسا ہوسکتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ‘چادر اور چار دیواری کی توہین کی کوئی ایسی مثال کسی ملک میں مل سکتی ہے، اس رپورٹ پر نظر ڈالیں تو یہ رپورٹ نہیں بلکہ یہ پریس ریلیز ہے بلکہ میں کہوں گا کہ یہ ان کے اپنے خلاف ایف آئی آر

ہے’۔ کراچی واقعے پر آئی ایس پی آر کی رپورٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ‘کہا گیا کہ مزار قائد کی بے حرمتی کی گئی اور افسروں کے جذبات بھڑکا دیے گئے اور ان کے جذبات بھڑک گئے’۔ان کا کہنا تھا کہ‘قائد اعظم کے مزار کا احترام کرتے ہو تو قائد اعظم کے نظریات کا بھی احترام کرو، ان کا احترام کیوں نہیں کرتے، قائد اعظم کی تعلیمات کی بے حرمتی کیوں

کرتے ہو، یہ جذبات اس وقت کیوں جوش نہیں مارتے جب آئین پر حملہ ہوتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ‘یہ جذبات اس وقت کیوں جوش نہیں مارتے جب جمہوریت پر حملہ ہوتا ہے، جب ایک ملک کی حکومت پر شب خون مارا جاتا ہے، عوام کے منتخب وزیراعظم کو وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کیا جاتا ہے اور ہتھکڑیاں پہنائی جاتی ہیں تو اس وقت یہ جذبات جوش کیوں نہیں مارتے’۔نواز شریف

کا کہنا تھا کہ‘یہ جذبات اس وقت جوش کیوں نہیں مارتے جب دھرنے دیے جاتے ہیں اور دھرنے کروائے جاتے ہیں، کیا ہمارے سینے میں دل نہیں کیا ہمارے اور آپ کے جذبات کی کوئی قدر وقیمت نہیں، چند لوگوں کے جذبات میں ابھال آتا ہے تو آئی جی کو اٹھا کر لے جاتا ہے، کسی جرنیل کا خون جوش مارتا ہے تو وزیراعظم کو اٹھا کرجیل میں ڈال دیتا ہے اور خود حکومت پر قابض

ہوجاتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ‘کسی کے جذبات میں گرمی آتی ہے تو کسی صحافی کو اٹھا کر لے جاتا ہے، پریس ریلیز جاری کرنے والوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ کس کو کیا پیغام دیا جارہا کہ نواز شریف کی ملکی مفاد میں نصیحت پرغدارقرار دیا جاتا ہے لیکن آج تم اپنے اداروں کا نام لے کر دنیا کو بتارہے ہو کہ ہمارے افسران جذبات میں آکر کسی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں ’۔ان کا کہنا

تھا کہ‘ایسے میں انہیں نہ تو آئین اور قانون کا خیال آتا ہے اور نہ ہی اپنے حلف کا اور نہ ہی فوج کے ادارے اور نہ ہی کسی چین آف کمانڈ کا خیال آتا ہے اور جذبات کی رو میں بہہ کر کچھ بھی کرسکتے اوراس بڑے معاملے کو دو اداروں کے درمیان غلط فہمی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے’۔نواز شریف نے کہا کہ‘صوبائی پولیس کے سربراہ کو گرفتار کرکے ایف آئی آر درج کرنے کا ذکر ہی

نہیں، ان افراد کے نام تک نہیں بتایا گیا جس نے یہ کام کیا،اس لیے یہ نام مقدس ہیں، یہ صرف سیاست دان ہی ہیں، ان کے نام کے ساتھ چور، ڈاکو اور غدار لگا دیتے ہیں ’۔انہوں نے کہا کہ‘ہماری کردار کشی کرو، جیلوں میں ڈالو، ہمارے ناموں کو گالی بنادو لیکن میں آپ بتادوں کہ اب ایسے نہیں چلے گا اور نہ چلنا چاہیے، حاضر سروس ججوں کے خاندانوں کی تضحیک کی جاتی ہے، صحافیوں

کے نام لے کر نشانہ بنایا جاتا ہے اور آئینی کی حدود میں رہ کر کام کرنے والوں کے نام لے کر ان کی تحضیک کی جائے گی تو پھر ان سب کے نام بھی ضرور لیے جائیں گے’۔نواز شریف نے کہا کہ میں اس پریس ریلیز کی ایک مرتبہ پھر پر زور مذمت اور مسترد کرتا ہوں، یہ انکوائری رپورٹ نہیں ہے بلکہ ایک من گھڑت افسانہ ہے، جس میں کسی سوال کا جواب دینے کے بجائے بے شمار

نئے سوالات اٹھا دیے ہیں ’۔ان کا کہنا تھا کہ اس واردات کے حکم دینے والے اصل کرداروں پر پردہ ڈال کر آلہ کار بننے والوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا، جس نے بے حد نقصان پہنچایا ہے’۔کارکنوں کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا کہ‘اسی کو ریاست کے اوپر ریاست کہتے ہیں، اسی کو حکومت کے اوپر حکومت کہتے ہیں، یہی چیزیں میرے اور آپ کے پاکستان کو آگے بڑھنے نہیں دے رہی

ہیں اور پیچھے دھکیل رہی ہیں ’۔انہوں نے کہا کہ‘یہ ہمارے لیے ایک گھاٹے کا سودا ہے، روک ٹوک کرنے والے اور آئین پر چلنے کی تلقین کرنے والے وزیراعظم اور سیاست دانوں کو عبرت کا نشان بنا کر پیش کیا جاتا ہے’۔نواز شریف نے کہا کہ ہماری کسی ادارے سے کوئی غلط فہمی نہیں ہے بلکہ ہم اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں، تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اداروں کو مضبوط

کیا ہے اور میں نے افواج پاکستان کو مضبوط کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ اداروں اور اہلکاروں کو آئین کا احترام کرنے کو کہتے ہیں، وہی بات کہتے ہیں جو قائد اعظم نے کہی تھی، وہی بات کرتے ہیں جو آئین میں لکھی ہے’۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ‘اب سیاست میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، انتخابات میں دھاندلی بند ہونی چاہیے، عوام کے ووٹ کی عزت ہونی چاہیے اور ووٹ کو عزت دو کا بھرپور نعرہ لگانا چاہیے’۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…