اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے مقدمے کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے جمع کروائی گئی دستاویزات میں قطر کے شاہی خاندان کے رکن اور سابق وزیر خارجہ حمد بن جاسم بن جبر الثانی کی جانب سے ایک خط عدالت میں پیش کیا ہے جس کے مطابق شریف خاندان نے 1980 میں الثانی گروپ میں ریئل اسٹیٹ میں جو سرمایہ کاری کی تھی اس سے لندن میں بعد میں چار فلیٹ خریدے گئے تھے۔منگل کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے جب پاناما لیکس کے بارے میں درخواستوں پر سماعت شروع کی تو مریم، حسین اور حسن نواز کے نئے وکیل اکرم شیخ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ایک ایسا خط پیش کرنا چاہتے ہیں جو محض عدالت کیلئے ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر عدالت مناسب سمجھے تو اسے عام نہ کیا جائے لیکن جب قطر کے سابق وزیر اعظم اور شہزادے حمد بن جاسم بن جبر الثانی کی جانب سے لکھا گیا یہ خط عدالت کے سامنے رکھا گیا حمد بن جاسم بن جبر الثانی نے اپنے خط میں کہا کہ ان کے والد کے مرحوم میاں محمد شریف کے ساتھ دیرینہ کاروباری مراسم تھے جو ان کے بڑے بھائی کے ذریعے چلایا جا رہا تھا۔انہوں نے کہاکہ دونوں خاندانوں کے درمیان آج بھی ذاتی تعلقات ہیں۔ حمد بن جاسم نے لکھا کہ انہیں بتایا گیا کہ 1980 میں میاں محمد شریف نے الثانی خاندان کے قطر میں جائیداد کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی۔ میری دانست کے مطابق اس وقت دبئی میں کاروبار کے فروخت سے ایک کروڑ بیس لاکھ درہم دئیے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے جواب میں کہا کہ جب یہ خط ریکارڈ پر آئے گا تو خود بخود عام ہو جائیگا۔ انھوں نے دریافت کیا کہ آیا قطر کی یہ شخصیت بطور گواہ عدالت میں پیش ہوسکیں گے؟ تو اکرم شیخ نے کہا کہ وہ اس بابت کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خط پڑھتے ہی پوچھا کہ اس میں تو ساری سنی سنائی باتیں ہیں کہ میرے باپ کا تعلق تھا، میں نے سنا ہے وغیرہ۔ اْن کا اکرم شیخ سے سوال تھا کہ اس کے علاوہ آپ کے پاس کیا کچھ نہیں؟ ’آپ کا منی ٹریل کہاں ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ جب اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت ہوگی تو اس کی صحت کے بارے میں فیصلہ اس وقت کیا جائیگایہ دستاویز فی الحال قبل از وقت ہے۔بی بی سی کے مطابق بینچ نے اکرم شیخ سے کہا کہ یہ خط سنی سنائی بات پر مبنی ہے اور یہ خط پیش کر کے آپ خود پھنس جائیں گے۔ خط میں قطری شہزادے کا کہنا تھا کہ پارک لین، لندن میں ایون فیلڈ ہاؤس میں فلیٹ نمبر 17، 17 اے، فلیٹ 16 اور 16 اے دو آف شور کمپنیوں کے نام پر رجسٹرڈ تھیں اور ان کے سرٹیفکیٹ قطر میں رکھے گئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ مجھے یاد ہے کہ اپنی حیات کے دوران میاں محمد شریف نے وصیت کی تھی کہ ان کی سرمایہ کاری اور اور جائیداد کے کاروبار کا منافع پوتے حسین نواز شریف کو ملے گابی بی سی کے مطابق اس مقدمے میں اس قطری خط کو کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے جو ان لندن فلیٹس کے بارے میں رقوم کہاں سے آئیں کا بظاہر جواب ہے۔حمد بن جاسم کا کہنا تھا کہ 2006 میں الثانی گروپ اور حسین نواز کے درمیان اکاؤنٹس کو حتمی شکل دی گئی جس کے بعد ان فلیٹوں کے سرٹیفکیٹ حسین کے حوالے کر دیے تھے۔ اس بارے میں دوحا میں ریکارڈ موجود ہے۔