وہ مزار کے باہر انار بیچ رہا تھا‘ میں نے اس سے ایک انار لیا‘ اس سے چھری لے کر کاٹا اور خول سے دانے نکال نکال کر کھانے لگا‘ وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا‘ اس کی عمر پچاس پچپن کے درمیان تھی‘ سر کے بال سامنے سے اڑے ہوئے تھے‘ جسم فربہ تھا اور دانت پیلے تھے‘ وہ حلیے سے ایک لاپرواہ شخص لگتا تھا‘ لمبا عربی کرتا پہن رکھا تھا اور پاؤں میں چمڑے کے سلیپر تھے‘ وہ مجھے دیکھتے دیکھتے ہنسا اور بولا ”مسافر“ میں نے بھی ہنس کر جواب دیا ”مسافر“۔
اس نے مزار کی طرف اشارہ کیا اور پھر میری طرف انگلی کر کے بولا ”شیخ مسافر“ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا‘وہ شاید یہ کہنا چاہتا تھا ”تم شیخ کے مسافر ہو“ میں واقعی شیخ کے لیے دمشق پہنچا تھا لہٰذا میں نے فوراً ہاں میں سر ہلا دیا‘ اس کا جوش بڑھ گیا اور وہ بلاتکان عربی بولنے لگا‘ میں نے اپنے گائیڈ ولید کی مدد لی‘ وہ تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ گفتگو کرتا رہا اور پھر مجھ سے مخاطب ہوا‘ یہ نسلوں سے ابن عربی کی گلی میں رہ رہا ہے‘ آبائی باغ ہے‘ یہ اپنے باغ سے انار توڑ کر لاتا ہے اور شیخ کے دروازے پر بیچتا ہے‘ اس کا کہنا ہے شیخ کے مزار سے واپسی پر انار خریدنا اور دروازے پر کھڑے ہو کر کھانے میں ایک روحانی روایت چھپی ہے‘ اخی ولید دوبارہ عربی بولنے لگا اور انار والا جوش کے ساتھ جواب دیتا چلا گیا‘ ولید نے اس کی تقریر کے بعد بتایا ”پانچ سو سال سے روایت ہے جو زائر مزار سے نکل کر انار خریدتا اور مزار کی طرف منہ کر کے کھاتا ہے اس نے ابن عربی کے قدموں میں کھڑے ہو کر اللہ سے جو مانگا تھا وہ قبول ہو چکا ہے‘ یہ قبولیت کی نشانی ہے“ ہم انسان کیوں کہ اندر سے کم زور ہوتے ہیں لہٰذا میں بھی اس کی باتوں میں بہہ گیا لیکن پھر مجھے اچانک احساس ہوا دنیا بھر کے پھیری باز اسی طرح اپنے گاہکوں کو متاثر کرتے ہیں‘ میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر خالص دمشقی سٹائل سے اسے سلام کیا اور ہم پیدل جامع امیہ کی طرف چل پڑے‘ میری شام جامع امیہ کی قدیم گلیوں کے قدیم قہوہ خانوں میں گزرتی تھی۔
دمشق میں مغرب کی اذان کے ساتھ اندھیرا اترتا تھا تو میں خود کو اکیسویں صدی سے دسویں اور گیارہویں صدی میں محسوس کرتا تھا یوں لگتا تھا جیسے وقت ٹائم مشین پر بیٹھ کر واپس آ گیا ہے اور ابھی ان گلیوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی تلوار لہرا کر چلتا دکھائی دے گا یا ابن عربی کے درویش اللہ‘ اللہ کی صدائیں لگاتے ہوئے گزریں گے یا پھر ابن تیمیہ سوچ میں گم دائیں سے بائیں جائے گا‘ میری شام ان گلیوں میں گزرتی تھی اور صبحیں اور دوپہریں قدیم قبرستانوں‘ درگاہوں اور کلیساؤں میں‘ دمشق حقیقتاً ایک ”لائیو میوزیم“ ایک دھڑکتا سانس لیتا عجائب گھر ہے۔
شہر کا وہ بازار بھی آج تک جوں کا توں موجود ہے جس سے اہل بیت کے لٹے اور زخمی قافلے کو گزارا گیا تھا اور وہ طاق بھی جہاں حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک رکھا گیا تھا اور وہ بالکونی بھی جہاں بیٹھ کر یزید نے حضرت بی بی زینبؓ کا تاریخی خطاب سنا تھا‘ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے مزارات میں بھی ان کے جذبوں کی آگ آج تک جل رہی ہے اور رات کے پچھلے پہر دمشق کی گلیوں میں واک! اف خدایا وہ بھی کیا تجربہ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کے تمام قدیم شہروں میں رات کے پچھلے پہروں میں واک کی نعمت سے نوازا‘ غرناطہ کی گلیاں ہوں‘ قرطبہ یا سیویا کی گلیاں ہوں‘ فیض یا طنجہ کے قصبے ہوں‘ پیٹرا کی پتھریلی سڑکیں ہوں‘ لہاسا کے پرانے مندروں کے گرد آباد راستے ہوں‘ بخارا کے قدیم مدرسے اور باغیچے ہوں‘ اصفہان کے بازار ہوں یا پھر مدینہ کی گلیوں میں صبح صادق کی روشنیاں ہوں اللہ نے کرم کیا اور مجھے اپنے ہر قسم کے شہر میں رات کے پچھلے پہر گزارنے کا موقع دیا لیکن حضرت محی الدین ابن عربی کے مزار اور اس مزار کے سامنے انار بیچنے والا وہ دمشقی کہاں سے یاد آ گیا اور وہ بھی عین اس وقت جب ٹیلی ویژن پر کراچی میں پی آئی اے کا مسافر جہاز گرنے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔
میں ٹیلی ویژن سکرین پر جہاز کا بکھرا ہوا ملبہ دیکھ رہا تھا‘ سکرین پر مسافروں کے نام چل رہے تھے اور طیارہ جن مکانوں پر گرا اس کے مکین دہائی دے رہے تھے اور میں دل پر ہاتھ رکھ کر‘ سانس روک کر ٹیلی ویژن کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن پھر اچانک ذہن پر دمشق اترا‘ ابن عربی کا مزار اور مزار کے باہر کھڑا انار فروش یاد آیا اور دماغ میں دمشق کی یادیں لہرانے لگیں‘ جہاز کا حادثہ اور دمشق دونوں میں کیا تعلق‘ کیا ربط ہے؟ میں نے اپنے آپ سے پوچھا اور پھر روح میں ایک فلیش سا ہوا‘ دونوں کے درمیان لفظ مسافر کا تعلق تھا۔
ہم اس دنیا میں مسافر ہیں‘ ایک ان دیکھے‘ ان سمجھے سفر کے مسافر‘ ہمارے راستے کا اگلا موڑ کیا ہو گا؟ ہم چند قدموں کے بعد کھائی میں جا گریں گے‘ ہمارے سامنے پہاڑ آ جائے گا‘ ہم کیچڑ میں لت پت ہو جائیں گے یا پھر ہم کسی گھنے جنگل میں جا نکلیں گے‘ ہم نہیں جانتے‘ ہمارا سفر کس وقت تمام ہو جائے ہم یہ بھی نہیں جانتے لیکن ہم اس کے باجود اس سفر کو مشکل سے مشکل بھی بناتے چلے جارہے ہیں‘ دنیا میں سفر کے کچھ آداب‘ کچھ اصول ہوتے ہیں۔
مثلاً سفر کے دوران جتنا سامان کم ہوگا آپ کا سفر اتنا ہی اچھا کٹے گا‘ آپ اتنا دور جا سکیں گے‘ دوسرا ہم جب دوسرے مسافروں کے ساتھ الجھتے ہیں تو ہماری منزل کھوٹی ہو جاتی ہے‘ ہم آگے بڑھنے کی بجائے راستے میں رک جاتے ہیں اور یوں ہمارا سارا سفر برباد ہو جاتا ہے‘ تیسرا اپنے ساتھی مسافروں کی مدد کرنے والے مسافر ہمیشہ خوش اور متحرک رہتے ہیں اور چوتھا دنیا کا ہر وہ مسافر جو راستے کی خوب صورتی دیکھتا اور اللہ کی کائنات کی تعریف کرتا رہتا ہے وہ کبھی تھکتا نہیں لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگ ان اصولوں کا خیال نہیں رکھتے۔
ہم نے زندگی میں جو کچھ پا لیا‘ اللہ نے ہمیں جو نعمتیں عنایت کر دیں‘ ہم اس کا شکر ادا نہیں کرتے‘ ہم انہیں سیلی بریٹ نہیں کرتے‘ ہم دوسرے مسافروں‘ ساتھیوں‘ عزیزوں اور رشتے داروں کی مدد کرنے کی بجائے ان کے لیے زندگی کو مشکل بھی بناتے چلے جاتے ہیں چناں چہ ہم پوری زندگی خوشی سے محروم رہتے ہیں‘ ہم اپنی پوری زندگی مقابلہ بازی‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنی ناک بلند رکھنے میں ضائع کر دیتے ہیں‘ ہم خود آگے بڑھتے ہیں اور نہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں چناں چہ ہمارے ساتھ ساتھ دوسروں کا سفر بھی خراب ہو جاتا ہے اور ہم عمر بھر اپنی اوقات‘ اپنی ہمت سے زیادہ سامان بھی اٹھاتے رہتے ہیں۔
ہم آخر میں اتنا بوجھ اٹھا لیتے ہیں کہ ہم چند قدم بھی نہیں اٹھا پاتے اور ہمارا سفر تمام ہو جاتا ہے‘ جمعہ 22 مئی کو لاہور سے کراچی جانے والے 91مسافراور عملے کے 8 ارکان بھی شاید ایسے ہی ہوں گے‘ یہ بھی شاید ہماری طرح اپنے بوجھ میں اضافہ کرتے رہے ہوں‘ ان کے دماغ‘ ان کے جسم اور ان کی روحوں پر بھی وزن ہی وزن ہو‘ یہ بھی شاید پوری زندگی دوسروں سے آگے نکلنے‘ دوسروں سے مقابلہ کرنے کے خبط میں مبتلا رہے ہوں‘ یہ بھی شاید اب تک زندگی کے اصل مزے سے محروم رہے ہوں۔
یہ بھی شاید اب تک اپنے خواب ہی بُنتے رہے ہوں‘ میں اگلے ہفتے یہ کروں گا‘ میں اگلے مہینے یہ کروں گا‘ میں 2021ء میں ہر صورت یہ کروں گا اور میں ریٹائرمنٹ کے بعد پوری دنیا دیکھوں گا وغیرہ وغیرہ‘ یہ بھی شاید ہماری طرح روز ایسے منصوبے بناتے ہوں گے‘ اپنے ساتھ وعدے کرتے ہوں گے‘ موبائل فون اور ڈائریوں میں نوٹ بھی لکھتے ہوں گے لیکن پھر کیا ہوا؟ منصوبے‘ منصوبے اور وعدے‘ وعدے رہ گئے اور مسافروں کا سفر اچانک ختم ہو گیا۔
دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ وہ لوگ جو بار بار تجربہ کرتے ہیں اور یوں تجربوں سے سیکھ جاتے ہیں‘ دوسرے وہ لوگ جو ایک آدھ تجربے سے سیکھ کر اپنی زندگی کی سمت درست کر لیتے ہیں اور تیسرے وہ جو دوسروں کے تجربوں سے سیکھتے ہیں اور لائف کو انجوائے کرتے ہیں‘ ہمارا استاد ابن عربی تیسری قسم کے لوگوں کو صاحب بصیرت‘صاحب بصارت کہتا تھا‘ آپ بھی اگر صاحب بصارت اور بصیرت ہیں تو پھر آپ کراچی میں گرنے والے طیارے کو دیکھیں اور اپنا راستہ سیدھا کر لیں۔
ہم دنیا سے کسی بھی وقت رخصت ہو سکتے ہیں آپ یہ بات پلے باندھ لیں‘ یہ بھی ضروری نہیں آپ گاڑی چلا رہے ہوں یا پھر آپ ہوائی سفر کر رہے ہوں یا آپ بیمار ہوں تو آپ کی جان جا سکتی ہے‘ دنیا میں کسی بھی وقت کوئی بھی جہاز آپ کے گھر کے اوپر گر سکتا ہے یا کوئی بھی گزرتی ہوئی گاڑی کسی بھی وقت آپ کو اپنا لقمہ بنا سکتی ہے‘ آپ نہیں جانتے چناں چہ آپ زندگی کے ہر دن کو آخری سمجھ کر گزارنا سیکھ لیں‘ آپ نے جو کام کل کرنا ہے وہ آج کر لیں‘ اپنا بوجھ‘ اپنا سامان کم رکھیں اور دوسرے مسافروں کی مدد کرتے رہیں‘ آپ کو کوئی ملال‘ کوئی ٹینشن نہیں ہو گی‘۔
آپ یہ بات بھی پلے باندھ لیں فلائیٹ پی کے8303کے تمام مسافر آپ سے زیادہ عقل مند اور طاقت ور تھے‘ زندگی نے اگر انہیں 40 سکینڈز کی مہلت نہیں دی تو پھر آپ اور میں کون ہیں؟ ہم خود کو موت سے کب تک بچا لیں گے چناں چہ توبہ کریں‘ شکر کریں اور آج کے دن کو آخری سمجھ کر گزار دیں‘آپ کی دنیا اور آخرت دونوں اچھی ہو جائیں گی۔