حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں میں جھاڑو پھیرا کرتے تھے‘ وہ سب سے پہلے اپنا گھر صاف کرتے تھے اور اس کے بعد گلی کو دائیں بائیں صاف کرتے چلے جاتے تھے‘ مریدوں کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا‘ وہ حضرت کو روکتے تھے لیکن آپؒ کا کہنا تھا من کی صفائی تن سے شروع ہوتی ہے‘ آپ جس دن اپنا جسم اور ماحول صاف کر لیں اس دن آپ کا من بھی اجلا ہو جاتا ہے‘ مرید عرض کرتے تھے حضور آپ یہ کام ہمیں سونپ دیں‘ ہم پورے ہندوانہ گائوں کو اپنی زبان سے چمکا دیں گے‘ آپ کا جواب ہوتا تھا ہر شخص کا تن اور من اس کا اپنا ہوتا ہے‘ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوتا ہے‘ تم اپنے تن اور من کی فکر کرو اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو‘ مریدین کو ان کی یہ ادا چھی لگتی تھی چناں چہ وہ بھی صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنے گھر اور پھر گلیاں صاف کرتے تھے‘ حضرت نقش بندی کے دور میں ان کے شاگردوں کی آبادیاں حیران کن حد تک صاف ہوتی تھیں‘
مجھے یہ واقعہ بچپن میں میرے ایک استاد نے سنایا تھا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی تو استاد نے جواب دیا تھا ترقی خواہ معاشی ہو‘ جسمانی ہو یا روحانی اس کا آغاز ہمیشہ صفائی سے ہوتا ہے‘ ہم عام زندگی میں بھی صاف ستھرے لوگ پسند کرتے ہیں‘ ہم نے اگر کوئی ملازم رکھنا ہو تو ہم ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کیا یہ صاف ستھرا ہے‘ صاف ستھرے لوگوں کو ملازمت بھی جلدی مل جاتی ہے‘ آپ یہ بھی دیکھ لو جن لوگوں کی دکانیں‘ ورک شاپس اور فیکٹریاں صاف ہوتی ہیں وہ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اور جلد کام یاب ہو جاتے ہیں‘ دنیا میں صف اول کے تمام ملکوں میں صفائی کامن ہوتی ہے جب کہ تیسری دنیا کے زیادہ تر ملک اور لوگ گندے ہوتے ہیں چناں چہ آپ نے اگر انفرادی یا اجتماعی طور پر ترقی کرنی ہو تو آپ کا صاف ستھرا ہونا ضروری ہے‘ حضرت نقش بندی سرکار اس حقیقت سے واقف تھے چناں چہ وہ خود بھی صفائی کا خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے‘ نقش بندی آج بھی نسبتاً دوسروں سے زیادہ صاف ہوتے ہیں‘ حضرت کے بارے میں مشہور تھا آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے صحن سے تازہ جھاڑو پھرنے کی خوشبو آتی تھی یوں محسوس ہوتا تھا کسی نے ابھی ابھی جھاڑو پھیرا ہو۔
میں اس ویک اینڈ پر چھٹی مرتبہ بخارہ میں حضرت نقش بندی کے مزار پر حاضر ہوا‘ ہم 44 لوگ تھے‘ ہمارے ساتھ اس مرتبہ شمالی وزیرستان کے ایک ایم این اے بھی تھے‘ یہ دین دار ہیں‘ مدرسہ چلاتے ہیں اور صحیح بخاری کے عالم ہیں‘ انہوں نے مزار پر کھڑے ہو کر طویل دعا کرائی‘ ان کی دعا میں بہت اثر تھا لیکن مزار شریف کی صفائی نے کہیں زیادہ متاثر کیا‘ مزار کے دائیں بائیں مثالی صفائی تھی‘ یہاں کبھی گائوں ہوتا تھا لیکن حکومت نے سارا گائوں خرید کر نقش بندی کمپلیکس بنا دیا‘ اب وہاں مسجدیں‘ حجرے‘ میوزیم اور ہینڈی کرافٹ کی دکانیں ہیں‘ ہم پورے کمپلیکس میں پھرتے رہے لیکن ہمیں کسی جگہ کوئی بوتل‘ ریپر اور ٹشو پیپر دکھائی نہیں دیا‘ یہ صفائی صرف نقش بند کمپلیکس تک محدود نہیں تھی بلکہ ہمیں تاشقند‘ سمرقند اور بخارہ تینوں شہروں میں کسی جگہ کچرا دکھائی نہیں دیا‘ ہم نے تین مرتبہ ٹرین میں سفرکیا‘ یہ سفر ہزار کلومیٹر سے زیادہ تھا‘ ہم تاشقند سے سمرقند گئے‘ وہاں سے بخارا کی ٹرین لی‘ میرا گروپ خیوا چلا گیا جب کہ میں سمر قند سے ہوتا ہوا تاشقند اور وہاں سے واپس پاکستان آ گیا‘ آپ یقین کریں ہمیں کسی جگہ کچرا اور گندگی نظر نہیں آئی‘ ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ کسی قسم کی تجاوزات نہیں تھیں‘ پٹڑی کی دونوںسائیڈز پچاس پچاس میٹر تک مکمل صاف اور کلیئر تھیں‘ آبادی اس کے بعد شروع ہوتی تھی اور یہ بھی سلیقے کے ساتھ تھی‘
کوئی گھر یا عمارت بری یا گندی نہیں تھی‘ جانوروں کے باڑوں میں بھی سلیقہ اور صفائی نظر آتی تھی‘ کھیت اور باغ بھی ترتیب کے ساتھ تھے‘ فصلوں کی لائنیں تک سیدھی تھیں‘ مجھے بائی روڈ بھی سفر کا موقع ملا‘ آپ یقین کریں کسی سڑک پر کوئی تجاوز نہیں تھی‘ دکانیں اندر تک محدود تھیں‘ کسی سڑک پر کوئی ریڑھی تھی اور نہ کرسی اور میز‘ فٹ پاتھ اور سروس روڈ مکمل کلیئر اور صاف تھی‘ لوگ بھی صرف زیبرا کراس سے سڑک عبور کر رہے تھے‘ درمیان سے سڑک پار کرنے کی کوئی مثال نظر نہیں آئی‘ ہمیں ہوٹل سے ایک نوجوان سڑک کے درمیان چلتا اور پار کرتا دکھائی دیا‘ ہمیں بہت حیرت ہوئی لیکن جب وہ قریب آیا تو پتا چلا وہ ہمارے گروپ کا پاکستانی بھائی تھا‘ ہمیں اس کے علاوہ کسی جگہ کوئی شخص یہ حرکت کرتا نظر نہیں آیا‘ زیبرا کراسنگ پر دونوں سائیڈز پر بیس بیس فٹ کے فاصلے پر لائنیں لگی ہیں‘ گاڑیاں یلو لائیٹ پر لائن پر رک جاتی ہیں‘ پیدل لوگ گزرتے ہیں اور اس کے بعد لائیٹ ریڈ ہوتی ہے تو گاڑیاں چلتی ہیں۔
ہمیں پورے ملک میں بھکاری نہیں ملے‘ حضرت نقش بندی کے مزار پر چند بھکاری آئے اور انہوں نے دست سوال دراز کر دیا‘ ہم انہیں رقم دینے لگے لیکن پھر سفید کپڑوں میں ایک صاحب آئے‘ انہوں نے ان سے بات کی اور موبائل فون سے ان کی ویڈیو بنا لی‘ تمام بھکاری فوراً فرار ہو گئے‘ ازبک خواتین بہت بااعتماد اور تگڑی ہیں‘ یہ پورے ملک میں پورے اعتماد کے ساتھ چلتی پھرتی نظر آتی ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا‘ یہ دفتروں سے لے کر دکانوں تک ہر قسم کا کام کرتی ہیں اور ان کے چہرے پر ذرا برابر تھکاوٹ یا بے زاری نظر نہیں آتی‘ یہ پورے اعتماد کے ساتھ چلتی ہیں‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں کا عملہ بہت ٹرینڈ اور نفیس ہے‘ دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے اور دوسروں کی دل سے خدمت کرتا ہے‘ خریداری میں تاہم کھل کر بارگیننگ ہوتی ہے‘ نرخ فکس نہیں ہیں‘ دکان دار دس لاکھ سم مانگے گا اور سودا دو لاکھ میں ہو جائے گا‘ کرنسی بہت کم زور ہے‘ ایک ڈالر کے ساڑھے بارہ ہزار سم ملتے ہیں‘ سو ڈالر تبدیل کرائیں تو آپ کو ساڑھے بارہ لاکھ سم مل جائیں گے یوں آپ لاکھ پتی ہو جائیں گے لیکن آپ اگر ایک مرتبہ واش روم چلے جائیں تو چوکی دار آپ سے تین ہزار سم وصول کر لے گا‘
پانی کی بوتل بھی بیس ہزار سے لے کر تیس ہزار سم میں آتی ہے‘ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کے زبیر سعید شیخ صاحب تھے‘ یہ بہت پڑھے لکھے‘ سمجھ دار اور شان دار انسان ہیں‘ انہوں نے بخارہ سے پانچ لاکھ سم میں دوقراقلی ٹوپیاں خریدلیں‘ یہ اس کارنامے پر بہت خوش تھے‘ ان کا کہنا تھا دکان دار نے ان سے ایک ٹوپی کے چھ لاکھ سم مانگے تھے لیکن میں پانچ لاکھ میں دو خرید لایا‘ ہم دو دن ان کی دوسری ٹوپی نیلام کرتے رہے لیکن بدقسمتی سے سودا نہیں ہو سکا‘ شیخ صاحب کا خیال ہے میں اب یہ گوجرانوالہ میں فروخت کروں گا لہٰذا گوجرانوالہ کے شہریوں کے لیے وارننگ ہے ٹوپی آ رہی ہے خریداری کا بندوبست کر لیں‘ شیخ صاحب کا کہنا تھا یہ میری زندگی کی مہنگی ترین ٹوپی ہے‘ میں اب کہہ سکتا ہوں میں اڑھائی لاکھ کی ٹوپی پہنتا ہوں‘ مجھے اس مرتبہ یہ بھی پتا چلا بادام بھی زندہ اور مردہ ہوتے ہیں‘ یہ لوگ تازہ باداموں کو زندہ اور پرانے باداموں کو مردہ کہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے مردہ باداموں میں تیل کم ہو جاتا ہے چناں چہ ان کی افادیت اور تاثیر کم ہو جاتی ہے جب کہ تازہ بادام میں یہ دونوں خوبیاں وافر مقدار میں ہوتی ہیں‘ میں روزانہ بادام کھاتا ہوں‘ میں نے دنیا جہاں کے بادام ٹرائی کیے لیکن آپ یقین کریں ازبکستان کے باداموں کا کوئی مقابلہ نہیں‘ آپ کو اگر ایک مرتبہ ان کا ذائقہ لگ گیا تو پھر آپ پوری زندگی ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکیں گے۔
ازبکستان اسلامی بلکہ مذہبی ملک ہے‘ آپ کو پورے ملک میں صاف ستھری مسجدیں ملتی ہیں‘ ان میں نماز بھی ہوتی ہے‘ لوگ بھی مذہبی ہیں‘ آپ کو حجاب میں عورتیں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود کسی جگہ شدت نہیں‘ لوگ مذہبی گفتگو نہیں کرتے‘ کسی سے اس کا عقیدہ نہیں پوچھتے‘ نماز صرف مسجد یا گھر پر پڑھی جا سکتی ہے‘ کسی عوامی مقام پر نماز کی اجازت نہیں‘ ہمارے گائیڈ داستان نے بتایا‘ ہم اسلامی ملک نہیں مسلمان ملک ہیں چناں چہ یہاں دوسرے مذہب کے لوگ محفوظ ہیں‘ ہم کھلے دل کے ساتھ انہیں قبول کرتے ہیں‘ تمام مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ امام حکومت تعینات کرتی ہے اور یہ تعلیم بھی حکومتی مدارس میں حاصل کرتا ہے‘ امام صرف نماز پڑھا سکتا ہے ‘ اسے کسی قسم کی تقریر کی اجازت نہیں‘ خطبہ حکومت بھجواتی ہے اور امام اسے پڑھنے کا پابند ہوتا ہے‘ ملک میں تبلیغ کی اجازت نہیں‘ ان کا خیال ہے ہم نے جتنا مسلمان بننا تھا ہم بن چکے ہیں ہمیں مزید تبلیغ کی ضرورت نہیں‘ تمام ریستورانوں میں ڈنر کے وقت موسیقی اور ناچ گانا چلتا ہے جس میں گھریلو عورتیں بھی شریک ہوجاتی ہیں‘ شراب عام دستیاب ہے لیکن کوئی شخص سرعام نہیں پی سکتا‘ لوگ صرف ریستوران میں شراب نوشی کر سکتے ہیں یا ہوٹل یا گھر میں اور ہم نے پورے ملک میں کسی شخص کو لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا بلکہ رکیے ہم نے کسی شخص کو اونچی آواز میں کسی سے مخاطب ہوتے بھی نہیں دیکھا‘ کیوں؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں‘ میرے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں اگر یہ لوگ مسلمان ہیں تو پھر ہم کیا ہیں؟دوسرا اگر یہ لوگ پوری قوم میں نظم وضبط پیدا کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ کیا آپ کے پاس ان دو سوالوں کا جواب ہے؟