بدھ‬‮ ، 03 ستمبر‬‮ 2025 

Inattentional Blindness

datetime 4  ستمبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس بیٹھا تھا‘ اس کے چہرے پر پریشانی‘ خوف اور ڈپریشن تھا‘ وہ ایوننگ واک کا وقت تھا‘ پارک لوگوں سے بھرا ہوا تھا‘ لوگ اس کے قریب آتے تھے‘ اسے دیکھتے تھے اور چپ چاپ آگے نکل جاتے تھے‘ وہاں سے ایک جوڑا بھی گزرا‘جوڑے نے دیکھا پارک میں بچے سے متعلق پوسٹر بھی لگے ہیں‘ خاتون بچے کے قریب سے گزری‘ اسے غور سے دیکھا‘ آگے بڑھی اور درخت پر چپکے پوسٹر کے قریب رک گئی‘ پوسٹر پر موٹے حرفوں میں لکھا تھا یہ بچہ مسنگ ہے‘اس کے نیچے بچے کی عمر‘ قد کاٹھ‘ وزن ٗ چہرے کا رنگ اور نام لکھا تھا اور تصویر بھی‘ خاتون نے غور سے پوسٹر پڑھا‘ وہ دوبارہ بچے کے پاس آئی‘ اسے بھی غور سے دیکھا اور جب اسے یقین ہو گیا یہ وہی بچہ ہے تو پھر اس نے کندھے اچکائے اور آگے روانہ ہو گئی‘ اس نے بھی پوسٹر پر لکھے فون نمبر پر رابطے کی کوشش نہیں کی‘ وہ بچہ دو گھنٹے بینچ پر بیٹھا رہا لیکن کسی نے اس پر توجہ دی اور نہ ہی پوسٹر پر لکھے نمبر پر فون کیا یہاں تک کہ پارک ویران ہو گیا۔

یہ کرسٹن کون تھا اور اس کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ ایک دل چسپ کہانی ہیٗ کرسٹن چائلڈ ایکٹر تھا اوریونیورسٹی آف روم کے نفسیاتی شعبے کے سماجی تجربے کا حصہ تھا‘ یونیورسٹی محسوس کر رہی تھی لوگوں کے اندر غیر ذمہ داری بڑھ رہی ہے‘ یہ دائیں بائیں نہیں دیکھتے اور دوسروں کی مدد نہیں کرتے چناں چہ انہوں نے روم کے سنٹرل پارک میں ایک تجربے کا فیصلہ کیا‘ یونیورسٹی نے پارک کی درمیانی راہ داری کے کنارے بینچ پر کرسٹن کو بٹھا دیا اور پورے پارک میں اس کی گمشدگی کے پچاس پوسٹر لگا دیے‘ کرسٹن کے دائیں بائیں موجود درختوں پر بھی پوسٹر چپکا دیے گئے اور ٹیم کیمرے لگا کر دور کھڑی ہو گئی‘ پارک بڑا اور خوب صورت تھا اور وہاں آنے والے لوگ بھی پڑھے لکھے اور کام یاب تھے‘ تجربے کے دو گھنٹوں میں سو لوگ بچے کے قریب سے گزرے‘ زیادہ تر لوگوں نے اسے دیکھا بھی‘ آدھے سے زیادہ لوگوں نے پوسٹر بھی پڑھے اور چار پانچ لوگوں نے بچے کی شناخت بھی کر لی لیکن اس کے باوجود کسی نے بچے کی مدد نہیں کی یہاں تک کہ پارک میں اندھیرا ہو گیااور بچہ اس پارک میں اکیلا رہ گیا۔

نفسیات دانوں نے یہ تجربہ ایک نئی تھیوری ’’توجہ کا اندھا پن‘‘ (Inattentional Blindness) کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیا تھا‘ یہ تھیوری 1992ء میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر ایرون راک اور ایرین میک نے پیش کی تھی‘ ان کی ریسرچ پر 1998ء میں اسی ٹائٹل سے کتاب بھی شائع ہوئی تھی‘ ایرون نے 1992ء میں دنیا کو مطلع کر دیا تھا‘ ہم انسان توجہ کے فقدان یا اندھے پن کا شکار ہو چکے ہیں‘ ہمیں اب دائیں بائیں کچھ نظر نہیں آتا‘ ہم صرف اپنی ذات تک محدود ہو چکے ہیں‘ ہم نے وقت پر دفتر پہنچنا ہے یا دفتر سے وقت پر گھر جانا ہے تاکہ ہم اطمینان سے سو سکیں یا تنخواہ میں سے پانچ ڈالرکی کٹوتی بچا سکیں لہٰذا اگر راستے میں کوئی ایکسیڈنٹ ہو گیایا دس بیس لوگ زخمی حالت میں سڑک پر پڑے ہیں ‘ ہمیں وہ نظر ہی نہیںآتے اور اگر آ جائیں تو ہم ان پر توجہ نہیں دیتے‘ ہم برگر خریدتے وقت یا کھاتے وقت بھی بھول جاتے ہیں ہم جس عمارت میں بیٹھے ہیں اس میں آگ بجھانے کا سیلنڈر موجود نہیں اور اگر آگ لگ گئی تو ہمارے سمیت پوری عمارت جل کر راکھ ہو جائے گی یا سکول کے وقت کوئی بچہ کندھے پربیگ لٹکا کر گلی میں آوارہ گھوم رہا ہے یا ہم غلط سڑک پر مڑے گئے ہیں اور ہماری وجہ سے بہت سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے‘ ہم یہ دیکھ ہی نہیں پاتے‘ ایرون نے یہ تھیوری موبائل فون اور سوشل میڈیا کی آمدسے برسوں قبل 1992ء میں دی اور 1995ء میں فوت ہو گیا‘ اس کے بعد موبائل فون اور سوشل میڈیا کا طوفان آ گیا جس کے بعد انسانوں میں توجہ کا اندھا پن بڑھتا چلا گیا چناں چہ اب مختلف اوقات میں مختلف ملکوں میں یہ تجربہ دہرا کر توجہ کے اندھے پن کی شدت کا اندازہ کیا جا رہا ہے‘

کرسٹن کا تجربہ 2016ء میں روم میں کیا گیاجس کے بعد یہ ڈکلیئر کر دیا گیا روم کے سو فیصد شہری توجہ کے اندھے پن کا شکار ہیں‘ یہ دیکھتے ہیں لیکن ان کا دماغ دوسروں کی مدد کے لیے رضا مند نہیں ہوتا‘ نفسیات دانوں نے رپورٹ میں اس خاتون کا بار بار ذکر کیا جس نے غور سے اشتہار پڑھا‘ اس کے بعد بچے کو شناخت کیا اور پھر کندھے اچکا کر چلی گئی‘ اس تھیوری نے اٹلی کے سمجھ دار لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا‘ اٹلی کی حکومت یا معاشرے نے اس اندھے پن کے مقابلے کے لیے کیا کیا میں نہیں جانتا تاہم مجھے یہ معلوم ہے ہمارے معاشرے میں یہ اندھا پن عروج کو چھو رہا ہے‘ ہمیں اب دائیں بائیں کچھ نظر نہیں آتا‘ ہم جانوروں کی طرح کسی مسئلے سے گزرتے ہیں اور پھر اس مسئلے کے وجود کو بھول جاتے ہیں چناں چہ چند دن بعد وہ دوبارہ ہماری زندگی میں آتا ہے اور پہلے سے زیادہ تباہی پھیلا جاتا ہے‘ میرا دعویٰ ہے‘ آپ کسی دن ا اپنی روٹین پر نظر دوڑائیں اور یہ جواب دیں آپ جس کرسی پر بیٹھے ہیں کیا آپ نے کبھی اس کے ڈھیلے پیچوں پر توجہ دی ہے جب کہ آپ جانتے ہیں آپ اگر اسے دو منٹ دے دیں تو یہ کرسی ٹھیک ہو جائے گی اور آپ زیادہ آسانی سے اس پر بیٹھ سکیں گے یا جو واش روم آپ استعمال کر رہے ہیں اس میں صابن نہیں‘ ٹونٹی لیک کر رہی ہے یا فرش گندا ہے اور آپ اگر اسے دو منٹ دے دیں یا صفائی والے کی توجہ اس جانب مبذول کرا دیں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا یا آپ دفترسے جاتے وقت لائیٹس‘ پنکھا اور اے سی بند کردیں یا آپ جس میز پر کام کرتے ہیں اس پر جمی تہہ صاف کر دیں یا آپ کے جوتے کے نیچے چیونگم چپکی ہوئی ہے یا آپ کی گاڑی سے چی چی کی آوازیں آ رہی ہیں یا آپ جس گھر یا بلڈنگ میں رہتے ہیں اس کے پودے پانی کو ترس ترس کر سوکھ گئے ہیں یا آپ کا ملازم بیمار ہے اور آپ نے اس کی طبیعت تک نہیں پوچھی اگر ان تمام سوالوں کا جواب ہاں ہے تو پھر آپ جان لیں آپ توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو چکے ہیں اور آپ کسی بھی وقت بڑے حادثے کا شکار ہو جائیں گے۔

میرا خیال ہے آپ کو جس دن اپنی ذات کا یہ اندھا پن نظر آ جائے گا آپ کو اس دن پورے سسٹم کا اندھا پن بھی دکھائی دینے لگے گا مثلاً آپ موسمیاتی تبدیلیوں کو دیکھ لیں‘ ہمیں پوری دنیا بتا رہی ہے پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا نشانہ ہے‘ پاکستان میں قطب شمالی اور جنوبی کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز ہیں‘ ان کی کل تعداد 13032 ہے ‘ یہ ملک میں پانی کا سب سے بڑا سورس ہیں‘ یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اگر ہمارا درجہ حرارت صرف دو ڈگری بڑھ گیا تو 65 فیصد گلیشیئرز پگھل جائیں گے جس کے بعد پاکستان میں پہلے سیلاب آئیں گے اورپھر ملک قحط سالی کا شکار ہو جائے گا یعنی ہماری آل اولاد بھوک سے مر جائے گی‘ پوری دنیا چیخ رہی ہے اٹلانٹک اوشن میں بارشوں کے نئے سسٹم نے جنم لے لیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بارشیں اور سیلاب بڑھ رہے ہیں‘ پوری دنیا گھنٹی بجا رہی ہے پاکستان کے شہروں میں سیلاب کا اندیشہ ہے اور پوری دنیا چیخ رہی ہے آپ لوگ درخت کاٹنا بند کر دیں‘ شجرکاری میں ہزار گنا اضافہ کریں‘ ندیوں‘ نالوں‘ نہروں اور دریائوں سے دور ہو جائیں‘ آبی گزر گاہیں صاف کر دیں اور گھروں اور گلیوں کا سیوریج سسٹم اور پانی کی نکاسی کا نظام ٹھیک کر لیں اور پوری دنیا ہمیں ہلاہلا کر جگا رہی ہے تمہارے پاس زیادہ وقت نہیں بچا تم فوری طور پر چھوٹے ڈیم بنائو‘ دیہات میں جھیلیں بنا لو‘ خشک نہریں کھودو‘ آب پاشی کا نظام تبدیل کرو‘ گھروں کے پانی اور سیوریج کے سسٹم بدلو اور بارش کا پانی سٹور کرنا شروع کرو لیکن ہم کسی آواز‘ کسی چیخ پر توجہ نہیں دے رہے‘ ہم آج بھی دریا کے عین درمیان ہائوسنگ سکیمیں گھر‘ دکانیں‘ باڑے اور کھیت بنا رہے ہیں‘ ہمارے گائوں پچھلے سال بھی دریا برد ہو گئے تھے اور ہم اس سال بھی دریا میں ڈبکیاں کھا رہے ہیں‘ آپ اس کو بھی چھوڑ دیجیے‘

ہم جب دو چار سال پہلے ڈوبے تھے تو ہمیں پتا چل گیا تھا سیلاب میں خشک راشن‘ صاف پانی‘ آگ اور کپڑے اہم ہوتے ہیں لہٰذا ہم کچھ نہ کرتے ہم کم از کم مون سون سے پہلے اپنی چھت پر چھوٹا سا چولہا ہی بنا لیتے‘ خشک راشن اور کپڑے ہی رکھ لیتے اور پانی فلٹر کرنے کا سستا سا سسٹم ہی بنا لیتے لیکن آپ دیکھ لیں کسی بھی سیلاب زدہ علاقے میں کسی نے یہ بندوبست نہیں کیا‘ حکومت بھی پے در پے سیلابوں کے بعد جان چکی ہے سیلاب میں کشتی اہم ترین ٹول ہوتا ہے لیکن مجال ہے کسی دریائی ضلع یا تحصیل میں حکومت نے کشتیوں یا ٹینٹ کا بندوبست کیا ہو یا لوگوں کو تربیت دی ہو لہٰذا پورا ملک اس وقت پانی میں بیٹھ کر وفاق اور اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہا ہے اور مجھے یقین ہے اگلے سال بھی ہم اسی طرح چھتوں پر بیٹھ کر حکومت کو کوس رہے ہوں گے‘ آپ ہمارا کمال دیکھیں‘ ہم سات ماہ پانی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں‘ ہم پینے کے پانی سے لے کر بجلی تک کی قلت کا نشانہ بنتے ہیں اور پھر دو ماہ پانی میں ڈوبتے رہتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود واٹر مینجمنٹ کے لیے تیار نہیں ہیں‘ نہ ہم اور نہ ہی ہماری حکومتیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیدھا سادا ’’توجہ کا اندھا پن‘‘ ہے اور یہ اندھا پن حکومت سے لے کر عام آدمی تک بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ سوال یہ ہے اگر حکومت کچھ نہیں کر رہی تو ہم کیا کر رہے ہیں‘ ہم دریا کے درمیان مکان یا ہوٹل کیوں بنا رہے ہیں‘ درخت کیوں کاٹ رہے ہیں اور بارش کے موسم میں پانی اور راشن کا بندوبست کیوں نہیں کر رہے؟ کیا ہم اس صورت حال کے خود ذمہ دار نہیں ہیں؟ ہم ہی ذمہ دارہیں کیوں کہ ہم توجہ کے اندھے پن کا شکار ہیں‘ ہمیں تباہی سامنے نظر آ رہی ہے لیکن ہمیں یہ دکھائی نہیں دے رہی چناں چہ ہم اندھے لنگڑے کی طرح ٹٹولتے جاتے ہیں اور لڑکھڑاتے جاتے ہیں اور یہ ہے ہمارا اصل ایشو۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Inattentional Blindness


کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…