بدھ‬‮ ، 12 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

datetime 13  ‬‮نومبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو پتا چلا دل کی تین شریانیں 50 سے 60 فیصد بند ہیں‘ میں ایکسرسائز اور خوراک کو چھٹی نماز سمجھتا ہوں‘ پوری زندگی اعتدال کے ساتھ گزاری لیکن پھر یہ دل کا مرض کیسے چمٹ گیا؟ یہ سوال میرے سامنے کھڑا تھا‘ ڈاکٹروں نے تین وجوہات بتائیں‘ شوگر کا 35 سالہ ساتھ‘ گو میری شوگر کنٹرول رہی لیکن اس کے باوجود یہ کبھی نہ کبھی دل پر اثر ضرور کرتی ہے اور اس کا اثر ہوا‘ دوسرا کورونا کی ویکسین‘ ڈاکٹروں کے بقول کورونا ویکسین لگوانے والے زیادہ تر لوگوں کو دل کا عارضہ لاحق ہو رہا ہے اور تیسرا فیکٹر سٹریس تھا۔

میں کیوں کہ مسلسل اٹھارہ سال سے شو بھی کر رہا تھا اور کالم بھی لکھ رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ٹریول‘ کوچنگ‘ یوٹیوب اور آرگینیکلز کے پھڈے بھی تھے‘ یہ تمام چیزیں مل کر سٹریس پیدا کررہی تھیں اور یہ دل پر اثرانداز ہو رہی تھیں‘ میں پوری زندگی جلد سونے کی کوشش کرتا رہا لیکن بے تحاشا کوشش کے باوجود صبح کے تین بج جاتے تھے‘ دن کے وقت ڈیڑھ گھنٹہ قیلولہ کر کے یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن نیند بہرحال رات کی ہوتی ہے اور میں اس سے محروم رہا۔
لاہور میں دل کے ایک زبردست‘ دین دار اور مخلص ڈاکٹر ہیں‘ ڈاکٹر جاوید سبزواری‘ میری ان سے گپ شپ ہوتی رہتی ہے‘ مجھے انہوں نے ستمبر میں مشورہ دیا تھا جاوید صاحب آپ اپنی صحت کے لیے جو فیصلہ پانچ یا دس سال بعد لینا چاہتے ہیں آپ اسے آج لیں ورنہ آپ فیصلے کے قابل نہیں رہیں گے‘ میں نے انہیں اپنی صحافتی مجبوریاں بتائیں لیکن ان کا کہنا تھا ’’آپ کو بہرحال اپنا بوجھ کم کرنا ہو گا‘‘ ۔

قصہ مختصر ایکسپریس کے بعد میری عملی زندگی کا پہلا دن تھا جس میں سٹریس کے ساتھ نہیں جاگا‘ مجھے سارا دن اپنا دل بھی ہلکا محسوس ہوا‘ مجھے اس دن معلوم ہوا میں برسوں سے دکھائی نہ دینے والا ایک بوجھ اٹھا کر پھر رہا تھا۔ قدرت نے ان برسوں میں میرے ذاتی پلیٹ فارم پیدا کر دیے ‘ ہماری ویب سائیٹ(javedch.com) بڑی تگڑی ہے‘ فیس بک پر 50 لاکھ فین ہیں اور تین یوٹیوب چینلز ہیں اور یہ ٹھیک ٹھاک پرفارم کر رہے ہیں‘ میں بلاوجہ کمٹمنٹ کے بندھن میں بندھا رہا‘ مجھے چاہیے تھا ڈاکٹر جاوید سبزواری کی بات مان کر ستمبر میں خود یہ بوجھ اتار دیتا لیکن شاید میرے جیسے لوگ خلوص اور کمٹمنٹ میں اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ یہ اپنے دل کی آواز بھی نہیں سنتے۔

عربی زبان کی ایک پرانی کہاوت ہے‘ آپ جب مشورہ کریں تو کسی پڑھے لکھے یا عقل مند آدمی سے نہ کریں‘ تجربہ کار سے کریں‘ میں کیو ں کہ زندگی میں بے شمار تجربات سے گزرا ہوںچناں چہ کہہ سکتا ہوں میں یونیورسٹی سے گریجویٹ لیکن زندگی کی درس گاہ سے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہوں لہٰذا میں اس ڈاکٹریٹ آف لائف کی بنیاد پر آپ کو چند مشورے دے سکتا ہوں‘ میرے مشورے سینئر اور جونیئر دونوں قسم کے صحافیوں کے لیے ہیں‘ یہ اگر ان کو سیریس لے لیں گے تو ان کی زندگی بہتر گزرے گی۔

پہلا مشورہ آپ اپنے آپ کو کسی صحافتی ادارے تک محدود نہ رکھیں‘ کوئی دوسرا سورس آف انکم ضرور تخلیق کریں اور یہ آپ کے موجودہ صحافتی سورس سے بڑا اور مضبوط ہونا چاہیے‘ یہ سورس آپ کو اعتماد بھی دے گا اور آپ زیادہ ایمان داری اور جرات سے کام بھی کر سکیں گے‘ آپ نے اگر یہ نہ کیا تو کسی دن اچانک آپ کو شدید معاشی جھٹکا لگے گا لہٰذا سب سے پہلے اپنی معاشی بیلٹ باندھیں‘ اپنے آپ کو آزاد اور مضبوط بنائیں‘ اس میں کوئی کوتاہی اور غفلت نہ برتیں‘ آپ یقین کریں میں نے اگر یہ سستی کی ہوتی تو آج میں مسائل کے صحرا میں اکیلا کھڑا ہوتا اور تاحد نظر بندہ ہوتا اور نہ بندے کی ذات۔

دوسرا مشورہ دنیا میں صحافت بدل چکی ہے‘ میری اپنی زندگی میں اخبار بہت تگڑا ہوتا تھا‘ یہ میرے دیکھتے دیکھتے سسک کر ختم ہو رہا ہے‘ یہ اب بمشکل سال دو سال نکال پائے گا چناں چہ وہ لوگ بے وقوف ثابت ہوئے جنہوں نے اپنی صحافت کو اخبار سے ٹیلی ویژن پر شفٹ نہیں کیا‘ 2000ء میں ٹیلی ویژن آیا‘ اس نے بے انتہا عروج دیکھا لیکن 2010ء کے بعد بتدریج اس کا زوال شروع ہو گیا اور 2020ء میں اس کی مقبولیت آدھی رہ گئی‘ آج 2025ء کے آخر تک ٹی وی کی ویورشپ 22فیصد رہ گئی ہے‘ میرے پاس پانچ برس قبل ایک بے روزگار نوجوان آیا تھا‘ وہ ٹیلی ویژن پر کام کرنا چاہتا تھا‘ میں نے اسے ٹی وی کی بجائے یوٹیوب کا مشورہ دیا‘ اس نے میری بات مان لی۔

میں پچھلے مہینے اس کے ساتھ ایک کافی شاپ میں گیا‘ آپ یقین کریں وہاں موجود تمام لوگ اسے نہ صرف جانتے تھے بلکہ اس کے فین بھی تھے‘مجھے بھی لوگوں نے بتایا ہم آپ کو صرف یوٹیوب پر دیکھتے ہیں لہٰذا آج کے دور میں اگر کوئی اینکر یا صحافی سوشل میڈیا پر شفٹ نہیں ہوا تو وہ بھی بے انتہا بے وقوف ہے‘ شہرت دولت سے بڑا نشہ ہوتی ہے‘ انسان ہیروئین کی طرح اسے بھی نہیں چھوڑ سکتا‘ آج اگر میرے اپنے پلیٹ فارم نہ ہوتے اور یہ ایکسپریس اخبار اور ایکسپریس ٹی وی سے زیادہ بہتر پرفارم نہ کر رہے ہوتے تومیری شہرت کا بلب فیوز ہوتے دیر نہ لگتی چناں چہ آپ وقت ضائع کیے بغیر خود کو سوشل میڈیا پر لے کر آئیں‘ یہ آپ کو نئی پہچان‘ نئی شہرت بھی دے گا اور مالی طور پر بھی خوش حال بنا دے گا‘ آپ ٹی وی کے مقابلے میں اس پر کھل کر بات بھی کر سکیں گے۔

تیسرا مشورہ صحافت اس وقت پرنٹ‘ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل تین حصوں میں تقسیم ہے‘ میں اللہ کے کرم سے تینوں پر کام کرتا رہا‘ یہ میرے لیے بہت مشکل تھا لیکن اللہ نے استقامت دی لہٰذا آج میرے پاس تینوں آپشن موجود ہیں‘ آپ لوگ بھی لکھنا شروع کریں اور کسی قیمت پر اسے بند نہ کریں‘ ویب سائیٹس پر لکھیں‘ بلاگز لکھیں اور ایکس اور فیس بک پر اپنے نام اور تصویر کے ساتھ لکھیں تاکہ آپ کا نام سٹیبلش ہوجائے‘ ٹی وی پر بھی کام کریں‘ تبصروں اور تجزیوں میں آتے رہیں اور سوشل میڈیا پر بھی چھوٹا ہو یا بڑا لیکن اپنا اکائونٹ بنائیں اور دل و جان سے اس پر کام کریں‘ آپ کو اس کی رینج حیران کر دے گی۔

تیسرا مشورہ اپنے بچوں کو اپنی زندگی میں معاشی طور پر مضبوط اور خود مختار بنائیں‘ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو 13 سال کی عمر میں کام پر لگا دیا تھا اور یہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنا کام کرتے رہے‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ شناختی کارڈ بنوانے سے پہلے اپنی کمپنیاں بنا چکے تھے اور ان کے پاس ملازم بھی تھے اور یہ باقاعدہ ٹیکس پیئر بھی تھے‘ میں نے بے شمار صحافیوں اور اداکاروں کے بچوں کو ان کے بعد گلیوں میں رلتے اور باپ کے نام پر بھیک مانگتے دیکھا‘ ان میں حبیب جالب اور مہدی حسن جیسے لیجنڈز بھی شامل ہیں‘ میں اپنی اولاد کو اس سے بچانا چاہتا تھا چناں چہ میں نے لائم لائیٹ کے زمانے میں انہیں ’’ٹف زندگی‘‘ دی۔

جنرل فیض حمید نے نومبر 2021ء میں میرے بیٹے پر سکول پر حملے کی ایف آئی آر کٹوا کر اسے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں پھینک دیا‘ میں باپ ہوں مجھے اپنا بیٹا بہت عزیز ہے لیکن میں نے اس کے باوجود ایک فیصد بھی اس کی مدد نہیں کی‘میں تھانے گیا‘ نہ کچہری گیا اور نہ اس سے جیل میں ملاقات کی‘ یہ سارے پراسیس سے خود گزرا اور خود باہر آیا‘ میری والدہ نے اس سنگ دلی پر مجھے بہت ڈانٹا لیکن میرا جواب تھا میں آج اس کی مدد کردوں لیکن کل اگر میں نہیں ہوں گا تو پھر یہ کیا کرے گا لہٰذا اسے اپنا بوجھ خود اٹھانے دیں۔
آپ بھی اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو خودمختار اور معاشی طور پر آزاد بنائیں‘ انہیں غلطیاں کرنے دیں تاکہ یہ زندگی کی بھٹی سے پختہ ہو کر نکل سکیں اور چوتھا مشورہ سیاست دانوں‘ بیوروکریٹس اور بزنس مینوں سے فاصلے پر رہیں‘ ان کی دوستی سے خود کو بچا کر رکھیں‘ ذاتی اور صحافتی زندگی میں فرق رکھیں ورنہ فارغ ہونے کے بعد کوئی آپ کا فون نہیں اٹھائے گا جس سے آپ کو تکلیف ہو گی‘ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کی شادی میں کسی میڈیا پرسن‘ بزنس مین اور بیوروکریٹ کو دعوت نہیں دی‘ میں نے صرف چھ ذاتی دوستوں کو بلایا باقی صرف فیملی اور بیٹوں کے دوست تھے‘ اس کا یہ فائدہ ہوا ہم نے شادی کو جی جان سے انجوائے کیا‘ مہمانوں کے ساتھ خود بھی کھانا کھایا اور کھل کر گپ لگائی‘ میرا مشورہ ہے آپ بھی فیملی فنکشنز کو سادہ رکھنا شروع کریں‘ اس سے آپ کو کل کلاں تکلیف نہیں ہو گی ۔

اور پانچواں مشورہ زندگی کا اصل ذائقہ اور مزہ سرپرائز میں ہے‘ قدرت روز آپ کو نیا رنگ دکھاتی ہے اگر اس میں ’’اچانک‘‘ نہ ہو تو یہ پھیکی ہو جائے چناں چہ اپنی زندگی میں آنے والے ’’اچانک‘‘ کو انجوائے کرنا سیکھیں‘ اسے سٹریس یا ڈپریشن نہ سمجھیں‘ کل کا دن آپ کے لیے کیسا ہو گا اللہ تعالیٰ کے اس سرپرائز کا انتظار بھی کریں اور اسے انجوائے کریں اور یہ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں صرف اور صرف خیر ہوتی ہے‘ اللہ کی ذات سے برائی کا تصور تک ممکن نہیں‘ میری زندگی سینکڑوں ’’اچانک‘‘ سے بھری پڑی ہے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ نوازہ‘ اس نے واقعی نئے سو دروازے کھولے اور میں اس وقت بھی سو نئے دروازوں کے سامنے کھڑا ہوں۔

ایکسپریس کے بعد میری زندگی میں تین تبدیلیاں آئیں‘ میں اب سٹریس فری ہوں‘ میرے سر سے پروگرام کا بوجھ اتر چکا ہے‘پروگرام کا بہت سٹریس تھا‘ کیمرے کے سامنے بولتے وقت دس مرتبہ سوچنا پڑتا تھا‘ میں کالم بھی سٹریس میں لکھتا تھا‘ لکھنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتا تھا لیکن اس کے باوجود کالم ایڈیٹنگ کا نشانہ بنتے تھے‘مجھے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا‘ اداروں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں‘ صحافت ظاہر ہے ان کا پروفیشن اورپیشن نہیں ہے‘یہ ان کا کاروبار ہے اور یہ لوگ کاروبار میں اپنے نفع اور نقصان کو اولیت دیتے ہیں۔

ایکسپریس کے بعد میں خود کو زیادہ آزاد محسوس کر رہا ہوں‘ میں اب اپنی مرضی سے لکھ اور بول سکتا ہوں‘آپ نے اگر تھری ایڈیٹس فلم دیکھی ہو تو اس میں اصلی رنچھوڑ کہتا ہے ’’مجھے اس نے بتایا تھا دو ایڈیٹس مجھے تلاش کرتے ہوئے یہاں آئیںگے‘‘ میں 35 سال سے لکھ رہا ہوں‘ ان 35برسوں میں دو چار سو ایسے ایڈیٹس ضرور پیدا ہو چکے ہوں گے جو مجھے تلاش کرتے ہوئے اس ویب سائیٹ تک پہنچ جائیں گے‘ میں ان شاء اللہ باقی زندگی ان ایڈیٹس کے لیے لکھوں گا اور مجھے یقین ہے یہ زیروپوائنٹ کو ایکسپریس سے زیادہ یہاں انجوائے کریں گے۔
میری شامیں بھی اب فری ہیں‘ میں اٹھارہ برس تک شام کو انجوائے نہیں کر سکا‘ فیملی کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکا‘ جلد سو نہیں سکا‘ دوستوں سے نہیں مل سکا‘ مجھے اب یہ موقع مل رہا ہے‘ والدہ کے ساتھ صرف لنچ کرتا تھا‘ اب ڈنر بھی کر رہا ہوں اور سینکڑوں کتابوں کا ڈھیر لگا تھا‘ میں نے وہ بھی پڑھنی شروع کر دی ہیں‘ میری تیسری زندگی سٹارٹ ہو چکی ہے‘آپ یقین کریں یہ میری پچھلی دونوں زندگیوں سے بہتر ہے‘ دیکھتے ہیں یہ کب تک جاری رہتی ہے (ختم شد)۔

موضوعات:



کالم



ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)


مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…