پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘ ہم بطور کولیگ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے‘ وہ کام نہیں کرتے تھے‘ ان کے پاس دراصل کام کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا تھا‘ تھکے ہوئے دفتر آتے تھے‘ کام کے دوران بھی ان کے ذائرین آتے اور جاتے رہتے تھے جب کہ مجھے کام چاہیے تھا لہٰذا میری ان سے روزانہ منہ ماری ہوتی تھی‘ یہ مجھے غیر سنجیدہ اور بدتمیز بھی سمجھتے تھے‘ ان کی یہ بات غلط نہیں تھی‘ غیر سنجیدگی اور بدتمیزی اس زمانے میں اخبار کی مجبوری تھی‘ اخبار کا کام بہت سنجیدہ ہوتا ہے اور انسان تمام سنجیدہ کاموں کو صرف غیر سنجیدگی سے ہی سرانجام دے سکتا ہے‘ دوسرا اخبار میں ٹائم لائین اہم ہوتی ہے اور اکثر اوقات اسے ’’میٹ‘‘ کرنے کے لیے ایڈیٹروں کو بدتمیزی کرنا پڑ جاتی ہے اور یہ غیر محسوس طریقے سے ان کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے‘ میں ایڈیٹر نہیں تھا لیکن میرے مزاج پر بھی ماحول کا اثر ہو رہا تھا‘ پروفیسر صاحب اکثر اس کا نشانہ بن جاتے تھے اورپھر ناراض ہو جاتے تھے‘
پروفیسر صاحب مجھے آسٹرالوجی کے بارے میں بتاتے رہتے تھے‘ یہ مجھے شیکسپیئر سے لے کر جان کیٹس تک مختلف انگریزی مشاہیر کی کوٹیشن بھی سنایا کرتے تھے‘ ہم سیاست دانوں کی گاسپس بھی کرتے تھے‘ ان کے معاشقے اور خاندانی لڑائیاں ہمارا خاص موضوع ہوتی تھیں‘ پروفیسر صاحب واقعی اپنے کام کے ماہر تھے‘ وہ ہاتھ سے زائچہ بناتے تھے‘ کاغذ پر دائرہ کھینچتے تھے‘ اس دائرے کو درمیان میں لکیر سے دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے‘ پھر دوسری لکیر سے اسے چار حصوں میں بانٹتے تھے اور پھر لکیر پر لکیر کھینچ کر انہیں بارہ خانوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور پھر ان بارہ خانوں میں مختلف ہندسے لکھ کر ڈگریاں بناتے تھے اور آخر میں کلائنٹ کے سوالوں کے جواب دیتے تھے‘ ان کا زائچہ اور پیشن گوئی بہت مضبوط ہوتی تھی‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے 1993ء میں میاں نوازشریف کی حکومت کی رخصتی کی پیشن گوئی پروفیسر صاحب نے سال پہلے کر دی تھی‘ میاں نواز شریف کی حکومت کی بحالی کی پیشن گوئی بھی کر دی تھی اور اس پر ان کی باقاعدہ اکبر علی بھٹی سے شرط بھی لگ گئی تھی اور یہ وہ شرط جیت بھی گئے تھے‘ بے نظیر بھٹو کی حکومت بننے اور پھر اس حکومت کے رخصت ہونے اور فاروق احمد لغاری کے کیریئر کے خاتمے کا بھی پروفیسر صاحب نے بہت پہلے بتا دیا تھا‘ اس زمانے میں طارق پیر زادہ اور سینیٹر طارق چودھری ان کے مستقل وزیٹر تھے‘ طارق پیرزادہ مجسٹریٹ تھے‘ ان کا گائوں موٹر وے پر تھا اور پیر صاحب کھارہ شریف کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘
یہ بعدازاں اسلام آباد کے ڈی سی بھی رہے جب کہ طارق چودھری سینیٹر تھے اور یہ حامد ناصر چٹھہ کے گروپ میں شامل تھے‘ پروفیسر صاحب انہیں بتاتے رہتے تھے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا مستقبل روشن ہے‘ آپ ان دونوں میں سے کسی کا پلو پکڑ لیں‘ حامد ناصر چٹھہ بھی پروفیسر صاحب کے فین تھے لیکن یہ لوگ ان کے مشوروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے‘ اس کی وجہ پروفیسر صاحب کی غربت تھی اور میرا تجربہ ہے آپ اگر غریب ہیں تو پھر آپ خواہ کتنے ہی نیک‘ پارسا اور دانش ور کیوں نہ ہو جائیں لوگ آپ کو سنجیدہ نہیں لیتے اور پروفیسر صاحب کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا‘ یہ سب بڑے لوگ ان کی کمپنی کو انجوائے کرتے تھے‘ یہ اگر بھون چلے جاتے تھے تو یہ انہیں فون کر کے واپس بلاتے تھے لیکن انہوں نے انہیں معاشی طور پر مضبوط اور آزاد بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا‘ ان میں سے کسی نے ان کی مستقل رہائش کا بھی بندوبست نہیں کیا‘یہ کبھی اس کے پاس ہوتے تھے اور کبھی اس کے پاس چناں چہ ان کا واحد معاشی ذریعہ پاکستان اخبار میں شائع ہونے والا ان کا کالم ’’ آج کا دن کیسا گزرے گا‘‘ اور چھوٹی سی ڈیسک جاب تھی اور بس۔
پروفیسر غنی جاوید کا کالم واقعی بہت پڑھا جاتا تھا‘ یہ اس میں ہر سٹار کے لوگوں کو ان کے دن کے بارے میں بتاتے تھے مگر اس کالم پر بھی میری ان سے روز لڑائی ہوتی تھی‘ یہ اپنا کالم اکثر لیٹ کر دیتے تھے جب کہ کاپی پریس میں بھجوانے کا وقت آ جاتا تھا‘ میں نے ایک دن شرارت کی اور ان کا کالم خود تحریر کر دیا‘ ہر سٹار کے سامنے انٹ شنٹ پیشن گوئی کر دی اور کاپی بھجوا دی‘ یہ کاپی جانے کے بعد کالم لے کر آئے تو ہم کام ختم کر کے چائے پی رہے تھے‘ یہ شرمندہ ہو گئے ‘ کالم لپیٹ کر جیب میں رکھ لیا مگر اگلے دن کے اخبار میں ان کا کالم چھپا ہوا تھا‘ میں نے اس دن انہیں شدید غصے میں دیکھا‘ یہ پہلے نیوز روم میں چلاتے رہے اور پھر اظہر سہیل سے میری شکایت کر دی‘ مجھے بلایاگیا‘ میں ایڈیٹر کے کمرے میں داخل ہوا تو اظہر سہیل ان کا کالم پڑھ رہے تھے اور اونچی آواز میں قہقہے لگا رہے تھے‘ وہ خود غالباً جوزا (Gemini) تھے اور اس دن ان کے خانے میں لکھا تھا‘ آپ آج اپنی بیگم سے لڑائی کی غلطی نہ کریں‘ آپ کو شدید مالی اور جسمانی نقصان ہو سکتا ہے‘ اظہر سہیل بار بار اونچی آواز میں یہ فقرہ پڑھتے تھے اور پھر قسم کھا کر کہتے تھے پروفیسر یار یہ پیشن گوئی سو فیصد درست ہے‘ میری آج صبح بیوی سے لڑائی ہوئی‘ اس نے میرے پائوں پر گلاس مار دیا‘ میں لنگڑا کر دفتر آیا ہوں‘ اس کے ساتھ اس نے میری جیب سے دو ہزار روپے بھی نکال لیے‘ یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی‘ آپ یقین کرو جاوید چودھری آپ سے بڑا آسٹرالوجر ہے چناں چہ آئندہ کالم پر نام آپ کا چھپے گا اور لکھے گا یہ اور آپ کی آدھی تنخواہ بھی اس کو جائے گی‘ پروفیسر صاحب کرسی پرچیں بچیں ہو رہے تھے‘ بہرحال آخر میں ہماری صلح ہو گئی اور میں نے ان سے معذرت کر لی لیکن میں کبھی کبھار ان کا کالم لکھتا رہا‘ پروفیسر صاحب شروع میں ناراض ہوتے تھے مگر پھر یہ عادی ہو گئے اور جس دن یہ زیادہ مصروف ہوتے تھے اس دن یہ فون کر کے کہہ دیتے تھے میں کاپی کے بعد آئوں گا اور یہ اشارہ ہوتا تھا آپ بے شک میرا کالم لکھ دو اور میں اگلے دن کے لیے لوگوں کے مقدر کا فیصلہ کر دیتا تھا۔
پروفیسر صاحب بہت معصوم‘ بے لوث اور سخی انسان تھے‘ یہ لوگوں سے فیس نہیں لے سکتے تھے اور یہ عادت ان کے انتقال تک جاری رہی‘ 1996ء میں میاں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے‘ اکبر علی بھٹی ان کی ہٹ لسٹ میں پہلے نمبر پر تھے چناں چہ میاں صاحب نے آتے ہی انہیں بیلنے میں دے دیا‘ ان کا سارا کاروبار برباد ہو گیا‘ پاکستان اخبار بھی اجڑ گیا‘
آدھا اخبار مجیب الرحمان شامی صاحب کے پاس چلا گیا اور آدھا سردار خان نیازی کے قبضے میں یوں پاکستان مغربی اور مشرقی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ میں اس سے قبل ہی پاکستان سے فارغ ہو گیا تھا‘ اکبر علی بھٹی نے اظہر سہیل کے بعد حامد میر کو ایڈیٹر بنا دیا تھا‘ میر صاحب جوان اورگرم جوش تھے‘ میں انہیں پسند نہیں آیا چناں چہ انہوں نے مجھے نکال دیا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں جب اخبار کی سیڑھیاں اتر رہا تھا تو پروفیسر صاحب اوپر چڑھ رہے تھے‘ یہ مجھ سے ناراض تھے لیکن میرا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر پریشان ہو گئے‘ مجھے ساتھ لیا اور ہم میلوڈی کے ایک چائے خانے میں بیٹھ گئے‘ میں نے انہیں بتایا‘ میں نوکری سے فارغ ہوگیا ہوں‘ انہوں نے فوراً کاغذ نکالا‘ حساب لگایا اور اس کے نیچے پنجابی میں لکھا ’’کبڑے کو لات راس آ گئی ہے‘‘ اور پھر وہ کاغذ لپیٹ کر میری جیب میں ٹھونس کر بولے ’’جیدو تم بہت جلد وہاں تک جائو گے جس کے بارے میں تم نے سوچا بھی نہیں ‘‘ بہرحال میں ڈیلی پاکستان سے چلا گیا اور چند ماہ بعد سارے ہی چلے گئے‘ حامد میر بھی فارغ ہوگئے بلکہ رکیے اکبر علی بھٹی بھی فارغ ہو گئے اور یوں بندہ رہا اور نہ بندہ نواز‘ پروفیسر صاحب اس کے بعد پی سی راولپنڈی میں بیٹھنے لگے‘ وہاں ان کے کسی مرید نے انہیں ہاشوانی صاحب سے کمرہ لے دیا تھا اور یہ وہاں آفیشل آسٹرالوجر ہو گئے تھے‘ میری ان سے کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی تھی لیکن پھر یہ ملاقاتیں بھی بند ہو گئیں‘ اس سال اپریل کے شروع میں طارق پیرزادہ صاحب کا فون آیا اور انہوں نے بتایا پروفیسر صاحب میرے پاس ہیں اور یہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ میں نے فوراً ڈرائیور بھجوا کر انہیں پک کرا لیا‘ ان کی عمر اس وقت 95سال تھی‘
بہت کم زور ہو چکے تھے‘ گاڑی سے بھی انہیں ڈرائیور نے اتارا ‘ انہیں سنائی بھی بہت کم دیتا تھا‘ مجھے منہ ان کے کان کے قریب لا کر بات کرنا پڑتی تھی یا پھر میں لکھ کر ان کے ساتھ بات کر رہا تھا‘ انہوں نے ایک اینکر کا نام لیا اور بتایا‘ میں اس کے ساتھ کام کر رہا ہوں لیکن مجھے معاوضہ نہیں ملتا‘ میرے بہت سے پیسے ان کے ذمے ہیں‘ میری مالی صورت حال اچھی نہیں‘ میں چاہتا ہوں میں تمہارے ساتھ کام کروں‘ تم میرا بندوبست کر دو‘ میں نے ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر عرض کیا‘ آپ 95سال کے ہو گئے ہیں‘ یہ عمر کام کی نہیں‘ میں بھی آپ کا بیٹا ہوں‘ آپ میرے پاس شفٹ ہو جائیں‘ ہم سارا دن گپیں ماریں گے اور باقی ساری ذمہ داریاں میری‘ یہ پوپلے منہ سے ہنسے اور بولے ’’مجھے صرف نوکری چاہیے اور بس‘‘ میں نے ان سے وعدہ کر لیا‘ آخر میں ان سے پاکستان کے بارے میں سوال کیا‘ ان کا جواب حیران کن تھا‘ ان کا کہنا تھا‘ اپریل کے آخر میں پاکستان پر بہت بڑا وار ہو گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے اسے بچا لیا تو پھر2027ء میں خوف ناک حملہ ہو گا اگرپاکستان اس میں بھی بچ گیا تو پھر اسے کوئی خطرہ نہیں‘ میں جب انہیں اس دن گاڑی میں بٹھا رہا تھا تو مجھے محسوس ہو رہا تھا یہ شاید میری ان سے آخری ملاقات ہے لہٰذا میں ان کے گلے بھی لگا اور ان کے دونوں گھٹنے بھی چھوئے‘ میرے دیکھا دیکھی میرے دونوں بیٹوں نے بھی ان کے گھٹنے چھو کر انہیں رخصت کیا‘ اپریل کے آخر میں پہلگام کا واقعہ پیش آ گیا اور پھر جنگ کی نوبت آ گئی‘میں اس سارے عرصے میں پروفیسر صاحب کو یاد کرتا رہا‘ میں نے سوچا میں ان سے لازمی ملاقات کروں گا لیکن پھر مصروفیت بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ میں جولائی میں ملک سے باہر تھا اور پروفیسر صاحب کے انتقال کی خبر آ گئی‘ یہ خبر سن کر میں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا‘ میری آنکھوں میں آنسو تھے‘ مجھے اس وقت محسوس ہو رہا تھا جیسے میرے والد دوسری بار فوت ہو گئے ہیں‘ میں روتا جا رہا تھا اور ان کی مغفرت کی دعا کرتا جا رہا تھا‘ پروفیسر غنی جاوید واقعی پروفیسر بھی تھے‘ غنی بھی تھے اور جاوید بھی ‘دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور مجھے اس عظیم انسان کے ساتھ بہت وقت گزارنے کا موقع ملا۔