فیض محل کے برآمدوں نے ایک ایسی ”لو سٹوری“ بھی جنم دی جس سے پاکیزہ جیسی درجنوں فلمیں بنیں‘ ناولز بھی لکھے گئے اور افسانے بھی تراشے گئے‘ یہ اقبال بانو عرف بالی اور میر علی نواز تالپور کی لو سٹوری تھی‘ آپ کو اس لو سٹوری کا رنگ بیجو باورا میں بھی ملے گا ‘دیوداس میں بھی اور پاکیزہ جیسی ماسٹر پیس فلموں میں بھی‘بالی اور علی نواز کی کہانی صرف کہانی نہیں یہ دل کو چھو جانے‘ روح کو تڑپا جانے اور احساس کو گرما جانے والی حقیقت بھی تھی‘ ایک ایسی حقیقت جو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے یادداشت کی نسوں میں اتر جاتی ہے اور جو قبر کی مٹی بن کر مرنے کے بعد بھی ”انگلش پیشنٹ“ کی طرح فن میں زندہ رہتی ہے۔
یہ بیسویں صدی کی ابتدا تھی‘ اقبال بانو عرف بالی ہیرا منڈی لاہور کی ناچنے والی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے گلے اور جسم دونوں کو لوچ اور دلفریبی کی نعمت سے نواز رکھا تھا‘ وہ دیکھتی تھی تو دل کی دھڑکن رک جاتی تھی‘ وہ گاتی تھی تو ہر رگ جاں مہک مہک جاتی تھی اور وہ ناچتی تھی تو پورا جہان تھرک اٹھتا تھا‘ بالی کے دور میں لاہور صرف لاہور نہیں تھا یہ بالی کا لاہور تھا جبکہ دوسری طرف میر علی نواز تالپور جیسافن نواز تھا‘ یہ خیر پور کا چھٹا میر تھا‘ یہ 1915ءمیں لندن میں پڑھ رہا تھا‘ والدبیمار ہو گیا‘ اس نے ولی عہد کو واپس بلایا اور شادی کا حکم دے دیا‘ پرنس کے پاس ہاں کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا‘ والد نے ہندوستان کے تمام راج واڑوں کو بردکھائی کی دعوت دے دی‘ انگریز گورنر اور غیرملکی تاجروں کو بھی بلا لیا گیا‘کوٹ ڈیجی فورٹ میں دعوت کا اہتمام کیا گیا‘ میر علی نواز تالپور کے دادا میر فیض محمد آرکی ٹیکچر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے‘میر صاحب نے خیر پور میں فیض محل کے ساتھ ساتھ کوٹ ڈیجی میں شیش محل اور وائیٹ پیلس بھی بنوائے تھے‘ مہمانوں کو ان محلوں میں ٹھہرادیا گیا‘ میر نے مہمانوں کی تفریح کےلئے حیدر آباد‘ لکھنو¿ اور لاہور سے گانے اور ناچنے والیاں بلا رکھی تھیں‘ بالی بھی ان میں شامل تھی‘ بالی نے گانا اور ناچنا شروع کیا‘ میر علی نواز نے اسے دیکھا اور وہ اپنا دل ہار بیٹھا‘ والد نے مہمانوں کے جانے کے بعد میر علی نواز سے چوائس پوچھی تو ولی عہد نے بالی کا نام لے لیا‘ محل میں کہرام برپا ہو گیا‘
تالپوروں کے لہو میں آج تک کوئی طوائف شامل نہیں ہوئی تھی چنانچہ میر نے انکار کر دیا‘ بیٹے نے شادی نہ کرنے کا اعلان کر دیا‘ باپ اور بیٹے کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی‘ لاہور میں میروں کا محل تھا (یہ محل آج تک موجود ہے)‘ میر علی نواز لاہور شفٹ ہو گیا اور اس کا زیادہ تر وقت بالی کے کوٹھے پر گزرنے لگا‘ والد اس صورت حال سے بہت پریشان ہو گئے‘ وہ بیٹے کو ہاتھ سے نہیں نکلنے دینا چاہتے تھے چنانچہ وہ مان گئے‘ میر علی نواز رشتہ لے کر کوٹھے پر پہنچا‘
بالی کی والدہ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا‘ اس کا کہنا تھا”یہ ہماری کمائی کا واحد ذریعہ ہے‘ یہ نہ رہی تو ہم سب بھوکے مر جائیں گے“ میر علی نواز نے بالی کے سارے خاندان کو خیرپور آنے اور وہاں مستقل قیام کی دعوت دے دی‘ خاندان کو جاگیر اور ماہانہ وظائف دینے کا وعدہ بھی کر لیا گیا‘ بالی کا خاندان مان گیا لیکن یہ شرط رکھ دی یہ لوگ پہلے خیر پور آئیں گے‘ میر اپنے وعدے پورے کرے گا اور پھر شادی ہو گی‘ میر مان گیا‘ بالی کا خاندان خیر پور شفٹ ہو گیا‘ میرعلی نواز نے انہیں کوٹ ڈیجی کے شیش محل میں ٹھہرا دیا‘
بڑے میر صاحب شادی کےلئے راضی ہو گئے تھے لیکن خاندان اور عمائدین رشتے سے خوش نہیں تھے‘ وہ ہر صورت یہ تعلق توڑنا چاہتے تھے‘ میر علی نواز اکثر رقص اور سرود کی محفلیں سجاتے رہتے تھے‘ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے گانے والے اور والیاں بلائی جاتی تھیں‘ کوٹ ڈیجی میں ایک رات محفل سجی‘ میر علی نواز گانا سنتے اور شراب پیتے رہے‘ یہ جب نشے میں دھت ہو گئے اور سونے کےلئے شیش محل گئے تو عمائدین نے ایک گانے والی ان کے کمرے میں گھسا دی‘
یہ خبر اس کے بعد بالی تک پہنچا دی گئی‘ میر صبح اٹھے‘ اجنبی عورت کو کمرے میں دیکھا اور پریشان ہو گئے‘ بالی کےلئے یہ واقعہ ناقابل برداشت تھا‘ وہ خاندان کو ساتھ لے کر لاہور واپس چلی گئی‘ میر علی نوازمعافی کےلئے لاہور پہنچے لیکن بالی نے واپس جانے سے انکار کر دیا‘ اس نے ناچنا گانا بھی دوبارہ شروع کر دیا‘ میر علی نواز اس صدمے سے درویش ہو گئے‘ وہ شاعر بھی تھے اور موسیقی کو بھی سمجھتے تھے‘ وہ شعر کہتے اور گلی گلی گاتے پھرتے تھے‘
بالی ایک رات کسی شادی میں گانے کےلئے گئی‘ میرعلی نواز بھی وہاں پہنچ گئے‘ لوگوں نے انہیں بھکاری سمجھ کر دھتکار دیا لیکن میر نے جب گانا شروع کیا تو لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے‘ تماش بینوں نے ان پر نوٹ بھی پھینکنا شروع کر دیئے‘ بالی میر علی نواز کی یہ حالت نہ دیکھ سکی‘ وہ ان کے پاس آئی‘ لوگوں کو ہٹایا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی‘ کہانی نے یہاں سے ٹرن لیا‘ بالی شادی کےلئے مان گئی لیکن ماں نے رشتہ توڑنے کےلئے آخری کارڈ کھیل دیا‘
اس نے شرط رکھ دی میر علی نواز بارات لے کر ہیرا منڈی لاہور آئیں گے‘ میر فوراً مان گئے اور اس کے بعد دنیا نے ایک عجیب منظر دیکھا‘ میر علی نواز نے پوری ٹرین بک کی‘ ٹرین میں تمام شاہی زیورات‘ گھوڑے‘ ہاتھی‘ بندوقیں اور توپیں بھریں اور ریاست کے سارے معززین کے ساتھ بارات لے کر ہیرا منڈی لاہور پہنچ گئے یوں بالی کا نکاح ہوا اور وہ شاہی بارات کے ساتھ خیر پور پہنچ گئی۔اقبال بانو شروع میں فیض محل میں رہی لیکن پھر میر نے اس کےلئے دلشاد منزل کے نام سے الگ محل تعمیر کرادیا‘
یہ محل آج بھی خیر پور ریلوے سٹیشن کے قریب موجود ہے‘ یہ چار بیڈ رومز کا بڑا محل تھا‘ محل کے اندر مجسمے‘ میورل اور اس وقت کی نادر پینٹنگز تھیں‘ لان بھی لاجواب تھا‘ میر علی نواز کا زیادہ تر وقت اس محل میں گزرتا تھا‘ وہ 1921ءسے 1935ءتک خیر پور سٹیٹ کے میر رہے‘ میر نے بالی بیگم کےلئے ایک شاندار کشتی بھی بنوائی ‘ یہ کشتی ”موہٹہ اینڈ ہرمین کمپنی“ نے بنائی تھی اور اس پر اس زمانے میں 75 ہزار روپے خرچ آیا تھا‘ یہ کتنی بڑی رقم تھی آپ اس کا اندازہ فیض محل سے لگا لیجئے‘
فیض محل اس زمانے میں مغربی ہندوستان کا مہنگا ترین محل تھا ‘ اس پر ایک لاکھ روپے خرچ آیا تھا اور یہ لاکھ روپے کی وجہ سے لکھوی پیلس کہلاتا تھا جبکہ میر علی نواز نے 75 ہزار روپے صرف کشتی پر لگا دیئے ‘ یہ ہندوستان کی مہنگی ترین کشتی تھی‘ یہ 13 فروری 1924ءکو خیر پور پہنچی اور میر نے اگلے دن اس میں بالی بیگم کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منایا‘ یہ کروسین آئل پر چلتی تھی اور اس میں ڈرائنگ روم‘ بیڈ روم‘ کچن‘ باتھ روم اور بڑی بالکونی تھی‘ میر اور بالی بیگم اس کشتی پر اکثر نارا کینال میں سیر کرتے تھے‘
برطانوی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے دوران سندھ میں مارشل لاءلگایا تو یہ کشتی انگریز گورنر کے قبضے میں چلی گئی‘ یہ جنگ کے زمانے میں گورنر کے ذاتی اور فوجی استعمال میں رہی‘ یہ 1947ءمیں قیام پاکستان کے بعد ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے حصے میں آ گئی‘ یہ شاہ ایران‘ جنرل ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ پیر پگاڑا اور جنرل ضیاءالحق کے استعمال میں بھی رہی‘ 2001ءمیں فریال تالپور نواب شاہ کی ناظم بنیں‘ محترمہ نے نواب شاہ میں ایچ ایم کھوجہ میوزیم بنایا‘بالی کی کشتی اس وقت تک نوادرات میں شامل ہو چکی تھی‘
ناظمہ نے حکم دیا اور یہ ٹریکٹر ٹرالی پر لاد کر نواب شاہ لائی گئی‘ کشتی راستے میں ٹرالی سے گر گئی‘ ٹوٹ گئی اور پھر اسے گھسیٹ کر نواب شاہ کے میوزیم کے سامنے پھینک دیا گیا‘ کشتی کے رہے سہے حصے کھلی فضا میں پڑے پڑے ضائع ہو گئے اور یوں بالی اور میر علی نواز کی محبت کی دوسری نشانی بھی ضائع ہوگئی۔
دلشاد منزل بالی اور میرعلی نواز کی محبت کی پہلی نشانی تھی‘ یہ نشانی وقت کے ہاتھوں بک گئی‘ یہ اب انڑ ہاﺅس ہے‘
محل کے نئے مالکان نے مجسمے اور میورل توڑ دیئے اور عمارت کی خوبصورتیاں پلستر کے نیچے چھپا دیں‘ پینٹنگز بھی غائب ہو گئیں اور چھت بھی تبدیل کر دی گئی‘ محل کااب صرف سٹرکچر اور سرخ اینٹیں بچی ہیں یا پھر محل کے پچھواڑ میں بالی بیگم کی خالی قبر ہے‘ بالی بیگم بیک وقت خوش نصیب اور بدقسمت عورت تھی‘ آپ اس کی خوش نصیبی دیکھئے‘ میر علی نواز نے اس کے ساتھ اتنی محبت کی کہ وہ عام طوائف سے محبت کی لازوال داستان بن گئی اور آپ اس کی بدنصیبی بھی ملاحظہ کیجئے‘
وہ زندگی میں عزت پا سکی اور نہ ہی موت کے بعد‘ وہ زندگی میں بھی بالی تھی اور وہ آج بھی بالی ہے‘ وہ کبھی اقبال بیگم نہ بن سکی‘ وہ میر علی نواز کی حیات میں انتقال کر گئی تھی‘ اسے ابتدا میں امانتاً دلشاد منزل کے پیچھے دفن کیا گیا اورپھر وصیت کے مطابق اس کی میت کو عراق شفٹ کر دیا گیا‘ وہ اس وقت کربلا معلی میں دفن ہے‘ میر علی نواز اس کی موت کے بعد دوبارہ درویش ہو گئے‘ خیر پور میں اس وقت ایک درویشنی اللہ دتی فقیرنی ہوتی تھی‘
میر کواس سے عقیدت ہو گئی‘ اللہ دتی فقیرنی کا انتقال ہوا تو میر علی نواز نے بالی کی خالی قبر میں اللہ دتی کو دفن کر دیا یوں محبت کی یہ عجیب سلگتی تڑپتی داستان اختتام پذیر ہو گئی لیکن اس کی کرچیاں آج بھی نواب شاہ‘ خیر پور اور لاہور میں بکھری پڑی ہیں‘ یہ قصہ آج بھی لکھنے والوں کی تحریروں میں زندہ ہے اور یہ شاید ہمیشہ زندہ رہے گاکیونکہ خدا کے بعد محبت کو کبھی زوال نہیں آتا۔